انھوں نے انٹر کا امتحان پاس کیا اور پرائمری سکول میں ٹیچر کی حیثیت سے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔اور بعد میں گاندھی جی کی ایک تحریک سے متاثر ہو کر نوکری چھوڑ دی۔ انھوں نے جوانی میں ہی افسانے لکھنے کا شروع کردیے تھے۔ انکی وفات ۱۹۳۶ میں ہوئی۔
میں پریم چند کو بطور افسانہ نگار اس لیے پسند کرتا ہوں کہ انکے افسانوں میں علامہ اقبال کی شاعری کی جھلک ملتی ہے۔ انکے ابتدائی افسانوں میں حب الوطنی کا جزنہ بھرپور نظرآتا ہے۔ اور جس طرح علامہ اقبال کی شاعری میں انگریزوں کے نفرت اور ان سے چٹکارا پانے کے لیے ترغیب موجود ہے بلکل وہی انداز پریم چند کے افسانوں میں بھی موجود ہے۔
پریم چند کو اردو افسانوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ پریم چند کے افسانے
ہندوستان کی سرزمین کے بہترین افسانے ہیں۔ انکے افسانے فنی پختگی کے عروج پر ہیں وہ پلاٹ کو پھیلانااور سمیٹنا خوب جانتے ہیں ۔
انکے کردار آہستہ آہستہ ارتقائی منازل طے کرتے ہیں۔ انکی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کرداروں کے جزبات کے اتار چڑھاؤ اور غریب ، مجبور اور بس انسا نوں کے طرز زندگی اور انکی زندگی کے ہر ہر حالات سے واقف ہیں۔ اور اپنے افسانوں میں اس کا بخوبی اظہار کرتے ہیں۔ انکے افسانے پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ہم خود افسانے کا حصہ بن گئے ہو۔
thank you so much supporting me
written by :
Kamil kahn