حکومتی کارگردگی کا جائزہ

Posted on at


حکومتی کارگردگی کا جائزہ


گو کہ گزشتہ حکومت نے اپنی آئینی مدت کامیابی کے ساتھ پوری کی اور ننھے جمہوری پودے کی نمو و آب یاری کی اور پہلی بار ایک آئینی جمہوری حکومت نے دوسری منتخب آئینی حکومت کو امارت کا قلمدان سونپا۔ گزشتہ جمہوری حکومت نے سرکاری ملازمت پیشہ لوگوں کی تنخواؤں میں پچاس فیصداضافہ کیا اور ایک اضافی چھٹی ہفتہ کی بھی دی۔ بظاہر یہ چھٹی انرجی کے بحران کے بے قابو جن کو بوتل میں بن کرنے کی سعی تھی۔  ملک میں سرکاری ملازمین کی تعداد اسی لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے اور اضافی تنخواہ سے مراد اسی لاکھ خاندانوں کی بہتر کفالت۔  اگر ایک محتاط اندازہ لگائے تو ہماری آبادی کا پندرہ فیصد حصہ سرکاری لوگوں کا ہے باقی آبادی جو پندرہ کروڑ ہے اس کی زندگی کے گزر بسر  کو گزشتہ حکومت نے اجیرن بنا دیاتھا۔ اشیاء خرد و نوش کی قیمتوں میں ہوش روبا اضافہ دیکھنے کو ملا، دہشت گردی زمین کے قلاپے آسمان سے ملا رہی تھی، بجلی کے بحران نے صنعتی ترقی کو شدید دھجکا دیا اور ملک کا ہنر مند بے روزگار ہو کر اپنے گھروں تک محدود ہو گیا اور گھریلو صارفین کے لئے مشکلات پیدا کر دی درآمدات اور برآمدات کے توازن میں وسیع خلیج حائل ہو گئی جس سے ملک کا کثیر زرمبادلہ درآمدی اشیاء کی خریداری میں صرف ہونے لگا۔  جن میں پٹرولیم کی مصنوعات ، آٹو انڈسڑری سے متعلقہ   نئی و پرانی استعمال شدہ گاڑیاں و پرزاجات، موبائل فون شامل ہیں۔  چین کے ساتھ بھی تجارتی توازن میں بگاڑ پیدا ہوا۔  ان ساری چیزوں میں بگاڑ کی وجوہات تو حکومتی نظام میں غفلت و غیر سنجیدہ پن تھا۔ بد عنوایت نے ملکی ترقی کا دروازہ بن کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ کئی اور وجوہات بھی گزشتہ سیاسی پارٹی کی حکومت کو لے ڈوبی جس میں سپریم کورٹ کے منصف اعلیٰ کی عوام طاقت سے بحالی بھی تھی جس میں گزشتہ حکومت چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری  کی بحالی پر ہچکچا رہی تھی۔ کیونکہ زرداری حکومت اپنے پرانے کیسوں کا پنڈورہ بکس کھلنے کی بو سونگھ رہی تھی۔



 


 مختصر یہ کہ گزشتہ حکومت اپنی کارگردگی بہتر نہ دیکھانے کی  وجہ سے عوامی طاقت سے دست بردار ہوئی ۔ نئی پارٹیوں نے کلین سویپ کیا جن میں پاکستان تحریک انصاف نے اے این پی کو صوبہ خیبر پختون خواہ میں سیاسی اکھاڑے میں پچھاڑ دیا۔ مسلم لیگ ن نے صوبہ پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق  کو باگا دیا۔  سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو نظریاتی حثیت حاصل ہے وہاں پر اس کی کامیابی یقینی تھی۔  جہاں پیپلز پارٹی کی ناقص کارکردگی کی بدولت عوام شدید مشکلات میں گرے ہیں۔ امن و عامہ کی بدترین صورت حال ہے اور بھوک و پیاس کی ڈسی انسانیت پر سندھ فیسٹول  کی پر جلوہ رونقیں امراء کو خوب لطف اندوز کر رہی ہیں۔  



گزشتہ حکومت اور موجودہ حکومت کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو کافی فرق محسوس ہوتا ہے۔  موجودہ سال کے آغاز میں   گیلپ پاکستان جو ایک ادارہ ہے نے موجودہ حکومت کی کارکردگی کے لئے ایک سروے کرایا۔  اس سروے کے لئے ملک کے چاروں صوبوں سے تین ہزار کے لگ بگ خواتین و حضرات چنے ، اور ان سے دیئے گے موضوعات جن میں بدعنوانیت، انسداد دہشت گردی، خارجہ پالیسی اور معیشت  کے مطالق سوالات تھے جس میں منتخب لوگوں کی اکثریت نے موجودہ حکومتی  کارکردگی کو سرہا۔ اسی بنا پر حکومتی درجہ بندی میں 59 فیصد اضافہ ہوا۔ 



آیئے دیکھتے ہیں وہ کون سے نمایاں کام ہیں جن سے حکومتی کارکردگی بہتر نظر آتی ہیں۔  جن بنیادی مسائل پر حکومت نے توجہ دی اس میں توانائی کا بحران ، دہشت گردی پر قابو پانے کی سنجیدہ کوشش، مہنگائی کو قابو کرنا،  بدعنوانیت کی روک تھام ، روپے کی بے قدری کو روکنا، خارجہ امور اور بے روزگاری وغیرہ ہیں۔


عوامی غیض و غضب سب سے زیادہ بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ  پر تھا۔ جسے حکومت نے بانپ لیا انرجی کے بحران پر قابو پانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر بجلی کی پیداوار کے منصوبے شروع کئے۔




تربیلا ڈیم کی ایکسٹنشن جس سے بلترتیب 1320 اور 1410 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا حصول ہے۔  دیامر بھاشا ڈیم 4500 میگا واٹ ، داسو ڈیم کی تعمیر کی فزیبلٹی روپوٹ تیار ہو چکی ہے جس سے 4320 میگاواٹ ، اور کشمیر میں واقع نیلم جہلم پروجیکٹ جس میں وزیراعظم نے جلد از جلد تکمیل کے لئے زور دیا جس سے 989 میگاواٹ بجلی کی پیداوار ہو گی۔  اسی طرح قائداعظم سولر پارک کی تعمیر کے لئے بھی آغاز کیا جا چکا ہے جس کے اہداف  1000 میگا واٹ بجلی پیداوار کے ہیں۔  کل پیداواری ہدف 1918 تک 21000 ہزار میگا واٹ سے زیادہ ہے جسے نیشنل گریڈ میں شامل کیا جائے گا جس میں کوئلے سے چلنے والے پاور جنریشن پلانٹ ، جوہری توانائی اور ونڈ فارم کے منصوبے بھی شامل ہیں۔




مہنگائی


 


کو قابو کرنے کے لئے حکومت ٹیکس کے نظام کو آسان اور موثر بنا رہی ہے۔  جس سے اشیاء ضروریات کی قیمتوں میں کمی متوقع ہے۔ اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی سفارشات کی جارہی ہیں۔


دہشت گردی کی روک تھام کے لئے حکومت پاک فوج کی مدد سے قانون شکن لوگوں سے نمٹ تو  رہی ہے لیکن ساتھ ساتھ بات چیت کے دروازے بھی کھول رکھے ہیں۔ جس کے لئے آل پارٹیز کانفرس کو مدعو کیا گیا جو دہشت گردی کو قابو کرنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہوئے جس نے اس بات پر زور دیا ہر ممکن طریقہ کار کو استعمال کر کے غیروں کی جنگ سے نکلا جائے۔ جس کے نتائج  کافی حد تک مثبت دیکھے جا رہے ہیں۔



گزشتہ حکومت میں زرمبادلہ کے زخائر چھ ارب ڈالر  کی حد تک گر چکے تھے۔ حکومت کی کامیاب اقتصادی پالیسوں کی بدولت اب یہ دس ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں  اور روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مضبوط ہوئی ہے۔


3 جی اور 4 جی کی کامیاب بولیاں لگی جس سے حکومتی خزانے کو ایک بلین ڈالر سے زائد آمدن ہوئی اور ساتھ ساتھ لاکھوں بےروزگار نوجوانوں کو روزگار کے متوقع مواقع بھی میسر آئے گے۔



خارجہ پالیسی کی بات کی جائے تو سب سے پہلے پڑوسی ملک بھارت سے تعلقات اہیمت کے حامل ہیں جو پہلے سے مذید بہتر ہوئے ہیں۔ بھارتی سیاسی پارٹی بی جے پی کا ایک  وفد اسلام آباد کا خفیہ دورہ کر چکا ہے۔   ترکی ، سعودی عرب ، چین ، کوریا اور امریکہ سے بھی مضبوط تجارتی تعلقات استوار ہوئے ہیں۔ ملک کے اندر ان ممالک کی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری سے ثابت ہے کہ ان ممالک کا پاکستان کی معیشیت پر اعتماد پختہ ہے۔


ان چیدہ چیدہ حساس قومی امور سے وابسطہ کامیاب پالسیوں اور تجزیوں سے ظاہر ہو رہا ہے حکومت نے قوم کو ٹھیک راستے کی منزل کی طرف گمزن کر دیا ہے اور حکومت اس بار غفلت کی مرتکب نہیں ہو رہی۔


 


 



160