بچوں کے ذہنوں پرڈر کے اثرات
اکثر بچے ڈرتے ہیں مثلا باہر جانے سے اکیلے کمرے میں جانے سے اندھیرے میں جانے سے یا اکیلے سونے سے وغیرہ وغیرہ اور پریشان ہوتے ہیں کہ بابا آجائے گا کہیں جن نا آجائے یا کسی جانور سے ڈرتے ہیں ان کے ڈرنے کا اندازا ان کی حرکات سے یا باتوں سے ہوتا ہے اور ہم اکثر انہیں نظر انداز کر کے یا ڈانٹ کر کہتے ہیں کہ کچھ نہیں تم صرف ڈرامے کرتے ہو یا اسطرح کی باتیں کرتے ہیں جس سے اسکا ڈر اور بھی پختہ ہو جاتا ہے بجائے اس کے اس کو ہم سمجائیں یا اس میں بچے کی مدد کویں نظر انداز کر دیتے ہیں۔
اس میں دراصلقصور والدین کا بھی ہوتا ہے جب بچہ کوئی بات نہیں مانتا مثلا جلدی سوتا نہیں۔باہر جانے کی ضد کرتا ہے یا اسطرح کی باتیں جو آپ کے اصولوں کے خلاف ہوتی ہیں تو اکثر لوگ بچوں کو ڈراتے ہیں کہ ایسا ہو جائے گا یا جن ۔بابا۔یا کوئی جانور سے ڈرایا جاتا ہے جس کااچر بچے کی ساری زندگی پر پڑتا ہے اور وہ ساری زندگی اس ہی ڈر کے تلے گزارتا ہے چاہے وہ جتنا مرضی بڑا ہو جائے۔
حالانکہ اگر بچے کو کسی چیز سے ڈر لگتا ہے تو ہمیں اس کی مدد کرنی چائیے اور ہر ممکن کوشش کرنی چائیے کہ اس کا ڈر یا خوف کسی نا کسی طریقے ختم ہو جائے اور وہ ہر فکر اور خوف سے آزاد ہو جائے اگر بچے کو کوئی ڈر یا خوف نہیں ہو گا تو وہ ہر کام آسانی سے اور مخنت و لگن سے کرے گا اور اس کا نتیجہ اچھا نکلے گا۔