حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ

Posted on at


حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ



 


حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد اور والد کا نام حضرت ابوطالب تھا-  حضرت علی بعثت نبوی  سے تقریبا دس سال پہلے پیدا ہوے تھے- آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کی کنیت ابو تراب اور ابو الحسن ہے-  آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کا لقب حیدر کرار، اسد اللہ اور مرتضیٰ ہے- آپ  رضی الله تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ  نے آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کو حیدر کا لقب دیا تھا-  آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کی پرورش کی ذمہ داری حضور نبی کریم نے لی اور آپ رضی الله تعالیٰ عنہ آغوش نبوت میں تربیت پائی-



حضور نبی کریم نے اپنے خاندان کو اسلام کی دعوت دی تو حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کی عمر دس برس تھی- یہ آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ پہلے اسلام لانے والوں میں آپ رضی الله تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے- حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے تمام عمر زندگی کے ہر مرحلے پر نبی پاک کا ساتھ دیا- آپ رضی الله تعالیٰ عنہ نے قبول اسلام کے بعد تیرہ برس مکّہ میں بسر کیے- جب حضور اکرم عبادت کرتے تو حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ بھی اس میں شریک ہوتے تھے- حج کے موقع پر حضور اکرم حضرت ابو بکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ کے ساتھ مختلف قبائل کو دعوت اسلام دیتے تو حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ہمراہ ہوتے تھے-



جب مسلمانوں نے مکّہ سے مدینہ ہجرت کی تب نبی کریم نے حضرت فاطمہ رضی الله تعالیٰ عنہ کا نکاح حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ سے کر دیا اس طرح آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کو نبی کریم کے داماد ہونے کا شرف حاصل ہوا-  کفارمکّہ نے نبی اکرم کو قتل کرنے کی سازش تیار کی تب حضور نبی کریم نے ہجرت کا ارادہ فرمایا ہجرت کے موقع پر حضور پاک نے حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کو اپنے بستر پر لیٹنے کا حکم دیا- حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے بے مثال بہادری اور جرات کا مظاہرہ کیا اور بغیر کسی ڈر یا خوف کے نبی پاک کے بستر پر لیٹ گئے-  حضور کریم کے وفات کے بعد ان کے غسل اور تجہیز و تکفین  کی خدمت بھی آپ رضی الله تعالیٰ عنہ نے انجام دی- ٰ 



حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ بہت عبادت گزار، سادہ مزاج اور علم و فضل میں کامل تھے- مظلوموں کی دادرسی کرتے تھے اور زہد و تقویٰ کا بہترین نمونہ تھے- آپ رضی الله تعالیٰ عنہ بہت شجاع اور بہادر تھے غزوہ تبوک کے علاوہ آپ نے تمام غزوات میں شرکت کی- میدان جنگ میں جاتے تو بے باکا نہ جاتے اور مدمقابل کو پچھاڑ دیتے- غزوہ بدر میں بہت سے کفار آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کی تلوار سے واصل جہنم ہوے-  غزوہ احد میں جب مسلمانوں  کو وقتی پسپائی ہوئی اور کفار حضور نبی پاک کو زخمی کرنے میں کامیاب ہوے تو حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے دوسرے صحابہ کے ساتھ مل کر نبی پاک کی حفاظت کی- غزوہ خیبر کے موقع پر حضور پاک نے آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں میں علم دیا اور فتح کی خوش خبری سنا دی- حضرت علی نے یہودیوں کے سردار مرحب کو پہلے ہی وار میں  قتل کر دیا اور یہودیوں کے حوصلے پست ہو گئے- اسی واقعے کے بعد آپ کو  "فاتح  خیبر " کہا جاتا ہے-



آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کی ذات میں بے پناہ خوبیاں تھیں- آپ رضی الله تعالیٰ عنہ علم، تقویٰ، شجاعت، حکمت و دانائی اور فصاحت و بلاغت جیسی عظیم صفات کے مالک تھے- آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کے اقوال و فرمودات ضرب المثل ہیں-  سن ٤٠ ہجری میں ماہ رمضان کی ایک صبح حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ پر نماز فجر کے دوران ایک خارجی ابن ملجم نے تلوار سے وار کیا آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کو گہرے  زخم اہے- ٢١ رمضان المبارک  کو آپ رضی الله تعالیٰ عنہ نے شہادت پائی-




About the author

Kiran-Rehman

M Kiran the defintion of simplicity and innocence ;p

Subscribe 0
160