وقت ، فلسفہ اور تعلیم کیا ہے ؟

Posted on at


کہا گیا ہے وقت کو برا مت کہودوسری طرف کہا جاتا ہے برا وقت آگیا ہے ویلا وخت خراب ہے گویا وقت کو کوسا جاتا ہے سب خرابیوں کا ذمہ دار ٹھرایا جاتا ہے یہ وقت ہے کیا چیز اس کو کسی نے سمجھا ہےیہ ہمارے ہاتھ کیوں نہیں آتا یہ گھڑیاں گھڑیاں ، زمانہ ، تاریخ، ماضی ، کیلنڈر ، جنتریاں سب وقت کے اردگرد کھومتی ہیں انسان وقت کا غلام ہے کوئی شخص وقت کو پابند نہیں بنا سکا گزرے ہوئے وقت کو واپس نہیں لا سکا شاعر کبھی کھبار ترنگ میں آ کر کہہ اٹھتے ہیں کہتے ہیں ،"عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں ۔جا مہکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا ،، وقت کسی کو سمجھ نہیں آتا اس کی باگ کسی کی گرفت میں نہیں آتی، غالب جیسا زیرک دانشور جانتا تھا کہ وقت کیسے کیسے کھیلکھیل رہا ہے" ۔

اس کے لئے وہ فلسفہ قدر کی جگہ جبر کا قائل ہوتا گیا یعنی جو ہوتا ہے خودبخود ہو جاتا ہے ہم وقت کی گردش کو تھام نہیں سکتے اس لئے اس کا خلاصہ بھرولنا چاہئے اقبال کی مافوق الطبیعاتی نزاکتوں سے واقف تھا وہ فلسفہ قدر کا سب سے بڑا ملبغ بھی تھا اور زمانے کے ساتھ چلنے اور اپنے ساتھ چلانے کا متمنی ہونے کے ساتھ زمانے کے ساتھ پنجہ آزما ہونے کا حوصلہ بھی رکھتا تھا یا وہ یہ کہتے ہیں وقت اتنی آسانی کے ساتھ سمجھ آنے کی چیز نہیں اسے اپنے کلنیڈروں اور جنتریوں کےپیمانوں کے ساتھ نہ ناپو، زندگی وقت سے بڑی چیز ہے وہ وقت اور زندگی کو متصادم کر کے زندگی کی فوقیت کو مسلم کر دیتی ہے ۔

"تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے ناپ جادواں پہیم دواں ہر دم جواں ہے زندگی " اقبال وقت کی دو حیشیتوں سے واقف تھا ایک وقت روز مرہ کا ہے جو صبح وشام پر محیط ہے یہ ہمارا غلام ہے مگر ہم اس کے غلام بن گئے ہیں دوسرا وقت اصلی ہے جو کلینڈروں سے باہر ہے اس کا حساب انسان کے پاس نہیں خدا کے کے پاس ہے ۔

وقت سیدھی لکیر ہے ماضی، حال ، مستقبل سب اس کے اندر ہیں اس پر گانٹھیں لگا کر صدیاں بنائی جا سکتی ہیں فقط سمجھنے کی حد تک اقبال کہتا ہے وقت کا دھارا بہتا جا رہا ہے دیر تک بہتا رہے گا یہ شمار صبح و شام ہم جیسےدنیا دار انسانوں کی سوچ ، کلینڈر اور جنتریاں ہیں بظاہر لاکھوں سال بوڑھی کائنات در حقیقت جواں ونوخیز کلی ہے جو مسلسل کھلتی جا رہی ہے ، مہکتی جا رہی ہے ۔

اقبال وقت کی روانی ،گمشدگی یا اس کے ناقابل فہم ہونے کے تصورات سے آگاہ تھا جو وقت کے گزرجانے پر اس کے اندر پیدا ہوتی ہے اس لئے وہ صبر کا مشورہ دیتا ہے ۔

"غم زندگی دم زندگی دم زندگی سم زندگی ۔ غم رم نہ کر سم غم نہ کھا کہ یہی ہے شاہ قلندری" غم دم یعنی وقت کے ہاتھ سے نکل جانے کا غم نہ کر یہ با سم زندگی یعنی زندگی کا زہر بن جائے گی شان قلندری اس بات میں ہے وقت کا زخم اٹھا کر بھی غم نہ کھایا جائے مسکرایا جائے وقت کے ساتھ آگے بڑھا جائے وقت کا مقابلہ کیا جائے ۔

سچی بات یہ ہے وقت کا معاملہ بڑا گھمبیر ہے ہم کلینڈر کے وقت کو نہیں سمجھ سکتے سچ مچ کے وقت کو کیا سمجھیں گے جو لوگ وقت کو نہیں سمجتے وہ زندگی کے اسرارے سے بھی غافل رہتے ہیں اور پکاراٹتھے ہیں کہ وقت نہیں ملتا ۔وقت کہاں گیا وقت کہیں نہیں جاتا ہماری شہ رگ کے بھی قریب ہے ہماری رگوں میں دوڑ رہا ہے دل میں ٹک ٹک کر رہا ہے دماغ میں کمپیوٹر کھولے بیٹھا ہے ضمیرمیں اذان دے رہا ہے اسے سنیں تو سہی دیکھیں تو سہی۔

 



About the author

shaheenkhan

my name is shaheen.i am student . I am also interested in sports.I feel very good being a part of filmannex.

Subscribe 0
160