مجید امجد کی شاعری اور ان کی شاعرانہ خصوصیات

Posted on at


عبدالمجید نام اور امجد تخلص تھا۔ شہرت مجید اجد کے نام سے ہوئی۔ وہ 29 جون 1914ء کو  جھنگ صدر میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب اور شریف گھرانے سے تھا۔ والد کا نام میاں علی محمد تھا۔ مجید امجد ابھی دو برس کے تھے کہ ان کے والد اور والدہ کی علیحدگی ہوگئی اور والدہ انہیں لے کر اپنے میکے لے آئی۔ چنانچہ مجید امجد کی پرورش ان کے نانا نے کی جس کا شمار جھنگ اہل علم  اور اہل صفا میں ہوتا تھا۔ اور انہیں سے مجید امجد نے عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ مجید امجد نے چند برس تک فارسی ، فارسی اور طب وغیرہ کا مطالعہ کیا اور پھر باقاعدہ تعلیم کے لیے سکول میں داخل ہوئے۔ 1930ء میں انہوں نے اسلامیہ ہائی سکول جھنگ سے میڑک کے امتحان میں فرسٹ ڈویژن میں کامیابی حاصل کی اور پھر ء اسلامیہ کالج لاہور سے 1934ءبی اے کا امتحان پاس کیا۔

بی اے کرنے کے بعد مجید امجد واپس جھنگ آئے۔ تو وہاں ایک ہفت روزہ اخبار "عروج " کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ 1939ء تک وہ عروج کے مدیر رہے اور اس عرصے میں ان کے افکار نظم و نثر برابر عروج میں شائع ہوتے رہے۔ دوسری عالمی جنگ کے آغاز میں برطانوی سامراج کے خلاف ان کی ایک نظم "قیصریت" عروج کے صفحہ اول پر شائع ہوئی جس کی پاداش میں انھیں "عروج" چھوڑنا پڑا اور وہ ڈسٹرکٹ بورڈ جھنگ میں کلرک ہوگئے۔ 1944ء میں وہ محکمہ سول سپلائیز میں انسپکٹر منتخب ہوئے اور چند برسوں کے بعد ترقی پا کر اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر بن گئے۔ اس محکمہ کے ملازمت کے دوران وہ کئی علاقوں میں تعینات رہے۔ مگر ان کی ملازمت کا زیادہ عرصہ منٹگمری (حال ساہیوال) میں بسر ہوا اور یہیں سے وہ 29 جون 1972ء کو ریٹائر ہوئے۔

مجید امجد کی پہلی شادی 1939ء میں اپنے ماموں کی لڑکی سے ہوئی جو گورنمنٹ سکول جھنگ میں پرائمری ٹیچر تھی لیکن یہ شادی کامیاب نہ ہوسکی۔ مزاج کے اختلاف کی وجہ سے وہ جھنگ میں ملازمت کرتی تھی اور مجید امجد جھنگ سے باہر ملازمت پر رہتے تھے۔ ان کے ہاں اولاد بھی کوئی نہ تھی اور نہ کوئی ان کا حقیقی بھائی تھا۔

مجید امجد کی وفات 11 مئی 1974ء کو بڑے دلگداز حالات میں ہوئی۔ وہ فرید ٹاؤن میں واقع اپنے جس کوارٹر میں رہتے تھے، ان کی ہدایت کے مطابق ان کا ایک پرانا ساتھی علی محمد، جو ان کا ماتحت ملازم تھا، اسے باہر سے تالا لگا دیا کرتا تھا۔ ایک دن وہ حسب معمول تالا لگا کر چلا گیا جب واپس آکر تالا کھولا کمرے میں مجید امجد کی لاش زمین پر پڑی ہوئی تھی۔ اس وقت جاوید احمد قریشی ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ ان کے زیر نگرانی لاش جھنگ میں بھیجی گئی اور وہیں تدفین ہوئی۔ جاوید احمد قریشی ہی کے ایماء پر ان کا کلام محفوظ کر کے ایک بنک کے لاکر میں رکھوا دیا گیا تھا۔

مجید امجد کے لیے شعر گوئی بقول ان کے ایسے تھی جیسے دریا کے لیے بہنا، کوئل کے لیے کوکنا اور ہوا کے لیے چلنا یعنی شاعری ان کی فطرت کا جزو تھی۔ وہ شعر کہتے تھے اور اکثر و بیشتر قارئین سے بے نیاز ہو کر کہتے تھے۔

 



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160