مجھے بھی نید میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے .
قدم روکتے ہیں اس سیر گاہ لطف کے اندر
کے اب اس خیمہ ہستی سے بار
جھاکنے کی آرزو بتاب رکھتی ہے
مری آنکھوں میں
رنگوں ، تتلیوں پھولوں ، غوباروں اور ستاروں سے موزیں خواب رکھتی ہے
مجھے مٹی کے اس بت خانے سے
آزاد کرنا چھاتی ہے
کسی روشن جزیرے میں
مجھے آباد کرنا چاہتی ہے
کسی ان دیکھی دنیا کی کشش
کچھ ورجی لینے کی خواہش
اپنی جانب کھنچتی ہے
کسی شولے سے اپنا سینا ، صد چاککو دکھانے والا ہوں
تمہیں کیسے خبر پوھنچی
کے میں اس خاکداں سے جانے والا ہوں !