جب بھی کوئی میرے سامنے امتحان کا نام لیتا ہے میرے مارے خوف کے روگنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ مجھے امتحانات سے شدید الجھن ہے۔ کیونکہ امتحان میرے نزدیک صرف اید سر دردی کے اور کچھ نہیں ہیں۔
مگر اب اس دنیا میں انسان بھیجا ہی انتحان کے لیے گیا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ امتحانات کی عجیب بات یہ ہے کہ یہ آپ کا پیھچا کبھی نہیں چھوڑتے۔ یعنی بچپن ، جوانی ، بڑھاپا آپ کسی بھی حالت میں ہوں آ پ نہیں بچ سکتے۔
جب بھی میرے کالج کے امتحانات شروع ہوتے ہیں تو مارے خوف کے میری رات کی نیند یں پتا نہیں کہاں بھاگ جاتیں ہیں۔ اور میں بس نیند کو تلاش ہی کرتا رہتا ہوں کہ امتحان کا وقت آن پہنچتا ہے اور معاملات میری سمجھ سے بالا تر ہو جاتے ہیں۔
مگر جب انتحانات قبر میں پیچھا نہیں چھوڑتے تو کالج میں کہاں چھوڑتے ہیں لہزا میرا پیپر کا دن آن پہنچتا ہے اور سست اور سست رفتاری سے کالج کا رخ کرتا ہوں ۔ بدن میں انجانی سی تھکن اور سوچیں نامعلوم منزل پر رواں دواں ہوتی ہیں۔
جب میں کالج میں پہنچتا ہوں تو دوسرے سٹوڈ نٹ نوٹس کی عجیب سی دنیا میں مگن ہوتے ہیں اور میری پریشانی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔