ابھی مایوس مت ہونا

Posted on at


ذرا دیکھو تو اس پانی میں
کتنا صاف دکھتا ہے
بہت شفاف سا ہے ناں
تو ہر منظر ہی دکھتا ہے
مگر یہ سارے منظر ہی
بہت چپ چاپ لگتے ہیں
کہ جیسے سوگ کوئی
ان کے اندر چھپ کے بیٹھا ہو
کوئی دکھ ہو ..........
جو ان کو چپکے چپکے
کھائے جاتا ہو
مجھے مینار کی ان جالیوں سے
جھانکتے کچھ لوگ لگتے ہیں
ان کا عکس جب .......
ان پانیوں میں آ ٹھہرتا ہے
تو ان کی نم آنکھوں سے
میرا دل جیسے رکتا ہے
کہیں قائد ..... کہیں اقبال کا
سایہ سا لگتا ہے
بہت رنجور اور مہجور سا
جو مجھہ کو لگتا ہے
شیر بنگال کا چہرہ بھی
اس پانی میں دکھتا ہے
جو اک بازو نہ ہونے پر
بہت غمگین لگتا ہے
پرندے جب کبھی .....
انسانوں کےاژدہام سے ڈر کر
یہاں اڑان بھرتے ہیں
تو ان کے ساتھ یادوں کے
کئی اوراق اڑتے ہیں
میں کچھ کاغذ لیے ....
اس جھیل کے جب پاس آتی ہوں
تو اپنا عکس یاں مجھ کو
بہت دھندلا سا لگتا ہے
میں گھبرا کر ذرا جو سانس لینے
اوپر آ جاؤں .......
تو سارا شہر ہی مجھ کو
بہت دھندلا سا لگتا ہے
دھواں سا اس قدر کیوں ہے ؟
کسی کا دل کیا جلتا ہے ؟؟
یہاں کتنا حبس ہے ناں
کہ جیسے سانس رکتا ہے
جلتے ٹائروں کا ہے دھواں
اور نیرو ہے کوئی ؟
اپنا گھر ہی جلتا ہے
مگر نہ فکر ہے کوئی ؟
میری سرگوشی کو سن کر
کوئی کھٹکا سا ہوتا ہے
وہاں ان سب کے ہونے کا
مجھے دھوکا سا ہوتا ہے
جو سالہا سال پہلے ......
اس وطن کا خواب اک لے کر
یہاں مل بیٹھے اور پھر
خواب یہ سچ کر دکھایا تھا
اگر وہ حال اب دیکھیں
کیا ان کے دل پرگزرے گی ؟
بہت تکلیف ہوگی ناں
بہت دلگیر ہوں گے ہاں
اسی ڈر سے ............
میرے ہاتھوں سے کچھ کاغذ
وہاں پر گر جو جاتے ہیں
تو تاریخی کئی لمحے
وہاں پر بکھر جاتے ہیں
کہیں قائد .... کہیں اقبال کے
ٹوٹے ہوئے سپنے .......
مجھے قدموں میں ملتے ہیں
کہیں رحمت علی ......
اس دیس کو یہ نام دینے پر
بہت مغموم لگتے ہیں
میں گھبرا کر ........
وہاں سے شاہی مسجد کو
نظر سے گھیر لینے کی
ذرا کوشش جو کرتی ہوں
نظر کچھ بھی نہیں آتا
نظر کی حد سے کچھ پہلے
بس اک بوڑھا سا راوی جو
بہت چپ چاپ لگتا ہے
کسی سے کچھ نہ کہتا ہے
مگر جو سن سکے کوئی
اگر جو پا سکے کوئی
وہی تو ہے جو کہتا ہے
وہ ہی تو ہے جو سہتا ہے
اذاں کی اک صدا پر میں
بہت بوجھل سا دل لے کر
وہاں سے جو پلٹتی ہوں
بہت پیارا سا اک بچہ
دو ہاتھوں میں لیے جھنڈا
کہیں سے دوڑا آتا ہے
وطن کا پاسباں ہونے کا
نغمہ گنگناتا ہے ......
تو منظر جاگ جاتے ہیں
یہی پیغام دیتے ہیں
ابھی مایوس مت ہونا
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں
دعاؤں کا ثمر بن کر
فصل گل جو آئے گی
تو کانٹے پھول بن بن کر
اسی گلشن میں مہکیں گے
یہاں اس جھیل میں پھر
عکس جتنے آ کے ٹھہریں گے
بہت شاداں بہت مسرور سے
وه پھر سبھی ہوں گے
کئی تاریخی لمحے بھی
یہاں پر امر پھر ہوں گے
ابھی کچھ خواب زندہ ہیں
ابھی امید باقی ہے
ابھی مایوس مت ہونا
ابھی مایوس مت ہونا


About the author

160