سلیم کوثر

Posted on at


ہاں ابھی نہیں
جذبے زنجیر نہیں ہوتے، سائے تو اسیر نہیں ہوتے
جو منظر ہیں پس منظر ہیں، وہ کیوں تصویر نہیں ہوتے
جتنے بھی خیال گُزار لئے، وہ کیوں تحریر نہیں ہوتے
اب خواب سراب سے لگتے ہیں
دن رات عذاب سے لگتے ہیں
کہیں جلتے بجھتے سائے سے، کہیں اَن دیکھے ہمسائے سے
آنگن بازار میں گلیوں میں، سب موت کا کھیل اُٹھا لائے
کوئی کسی کی فردِ جُرم لکھے، کوئی کسی کی جیل اُٹھا لائے
اک خوف بِچھا ہے رستوں میں
بارُود چُھپا ہے بَستوں میں
اب زہر ہے رات کی رانی میں
کہیں آگ لگی ہے پانی میں
تم کہتے ہو، تمہیں آن ملیں
تمہیں کیسے آن ملیں آخر
جو کچھ تھا بے ترتیب ہوا
اس گھر کا حال عجیب ہوا
یہاں ساحل تھا۔۔۔ جہاں آتی جاتی لہروں کے پیغام ہمارے نام لکھے تھے
دُور اُفق کے صحراؤں میں۔۔۔۔ بادلوں کے خیمے تھے جن میں
اکثر دُھوپ کی شدت
ان خیموں کو چَھلنی کرتی تھی
یہاں شام کی محرابوں سے جَل تَھل کرتی رات اُترتی تھی
یہاں ریت تھی جس کے سینے میں
قدموں کے نشاں دھڑکتے تھے
کوئی ناؤ تھی جس کے چلنے سے
پانی پہ چراغ سے جلتے تھے
کوئی آگ تھی جس میں چُھپے ہوئے
جسموں کے بھید پگھلتے تھے
کوئی گوشہ تھا، جہاں خواب سے خواب بدلتے تھے
کوئی تتلی پُھول پہ کِھلتی تھی
دامن سے خار لپٹتے تھے
خوشبُو کے رنگ بکھرتے تھے
اب کوئی نہیں اور کہیں نہیں
اِس چہرے سے اُس چہرے تک
حسرت سی اک نُمو کی ہے
اِن آنکھوں سے اُن آنکھوں تک
اِک لہر ہے اور آنسو کی ہے
اِس لمحے سے اُس لمحے تک
بس ایک لکیر لہو کی ہے
کئی برس ہوئے منظر تبدیل نہیں ہوتا
اب چاند کسی چھت پر اُترے
یا دُور کہیں سے للچائے
خُوشیوں کی دلیل نہیں ہوتا
تم کہتے ہو
تُمہیں آن ملیں
اِس موسم میں
اب تُم ہی کہو
کیا وعدے اور وعید کریں
تری دید کریں
ہم عید کریں
جس کاغذ پر ہمیں لکھنا تھا
اب وہ کاغذ اخبار ہوا
اب دِلوں کی حالت نازک ہے
جسے دیکھو وہ بیمار ہوا
ہاں ابھی نہیں
ابھی رات بھری اِس بستی میں ہمیں اور چراغ جلانے ہیں
کوئی کتنا بےتعبیر کرے ہمیں تازہ خواب جگانے ہیں
ابھی اور بھی نظمیں لکھنی ہیں ابھی اور بھی شہر بسانے ہیں
تم دُعا کرو
ملنے کی آس نہیں ٹوٹے
مری پلکوں پر
کتنے ہی سمندر لہرائیں
مرے ہونٹوں سے
کتنے ہی دریا آن ملیں
اندر کی پیاس نہیں ٹوٹے
تم دُعا کرو
ملنے کی آس نہیں ٹو ٹے
پَرابھی نہیں
ہاں ابھی نہیں
ہاں ابھی نہیں


About the author

160