ہم کون ہیں اورہم کہاں کھڑے ہیں؟

Posted on at


ہم کون ہیں اورہم کہاں کھڑے ہیں؟

میں اکثر سوچتا ہوں کہ اس ملک کے سیاستدان ، معشیت دان ، ملک کو چلانے کے پالیسی ساز اداروں میں بیٹھے حکمران اور دوسرے اہم عہدیدار ہم میں سے ہیں مگر ان سب نے اس ملک کو کیا دیا اور کیا لیا یا پھر لیا ہی لیا ہے۔ اب میں یہ بھی نہیں کہنا چاہتا کہ ان سب ذی وقار کہلانے والی ہستیوں نے ہمیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ نوجوان قیادت سے بد عنوانیوں اور کرپشن کی سیاست کی توقع نہیں ہو سکتی۔ اس وقت ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے ان سے ہمیں شاہد نوجوانوں کی مثبت سوچ ہی نکال سکتی ہے۔ جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے محنت کا بیج بونا پڑے گا تاکہ ہم بھی اپنی ریاست کو امن و آشنی کا آماجگاہ بنا سکیں۔ ہم مسجد جاتے ہوئے ڈریں نہیں کیونکہ ہم سچے مسلمان ہیں اور مسلمانوں پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کر کے گویا جہنم خریدنے کا سامان ہوتا ہے۔ ہم حدیث ، فقہ اور دین اسلام کو سمجھنے کے لئے مدرسوں کے نظام کو تقویت دیں نہ کہ مولویوں سے ڈرنا شروع کر دیں۔ یہ کتنی بڑی بد نصیبی ہے کہ ہمیں علم کی مجالس سے دور ہونا پڑ رہا ہے۔ ادھر گیہوں کے ساتھ گن بھی پس رہے ہیں یعنی بے گناہ مسلما ن ان دکیھے خفیہ ہاتھوں کی سازشوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس موقع پر مجھے اپنے نوجوانوں کے عزم اور ہمت کی ضرورت محسوس ہو تی ہے۔

جو نوجوان آج زندگی کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے زندگی نے بھی کل اُن کی پرواہ نہیں کرنی۔ آزادی ، بے فکری ایک حد تک نعمتیں ہیں یا دوستوں میں گھرے رہنا ، گھومنا پھرنا ، کھانا پینا  اور انٹرنیٹ پر دوستوں کے ساتھ چیٹنگ کرتے رہنا ہی زندگی کی خوشی نہیں دیتا یہ تو صرف ریلکس ہونے کے طور طریقے ہیں۔ اصل زندگی ذمہ داری کے بطن سے پیدا ہوتی ہے ہمیں شروع میں چھوٹی چھوٹی ذمہ داریوں کو نبھانا آجائے تو بڑی کی گنجائش بھی نکل ہی آتی ہے۔ ان نوجوانوں کو چینلائز کرنے کی ضرورت ہے پھر دیکھیئے یہ کتنے پُر عزم اور باکردار ہوتے ہیں۔ یہ نوجوان قیادت بن کر اُبھرے تو بے یقینی کے اس دور میں یقین راسخ بن جائیں گے۔ اپنی آئندہ زندگی کو سجائے سنوارے رکھنے کے لئے اپنی راہ اور منزل کا تعین کرنا ضروری ہے۔ اللہ کرے کہ ایسے حالات نہ رہیں کہ ہم گھر سے نکلتے ہوئے بھی ڈریں۔ دوستوں میں اچھے اور پُرے کی تمیز کرنا سیکھیں۔ پہلی ٹھوکر اور غلطی کو سنجیدگی سے لیں اس کے اسباب پر غور کریں۔ اپنے ارمان پورے کرنے کے لئے اقدار ، تہذیب اور ثقافت کی دھجیاں نہ اڑائیں۔ فیشن وہی کریں جو آپ پر سوٹ کرے۔ اپنی پیشہ وارانہ تعلیم و تربیت مکمل کر کے اپنے پیاروں کا مان بن جائیں اور دوستوں کی صحبت پر نظر رکھیں۔

 آپ ہمیشہ اپنے گھر سے پہچانے جائیں گے۔ پُرانے دور میں والدین کھڑے ہوں تو بچے پا ؤں پسار کے بیٹھا یا لیٹا نہیں کرتے تھے۔ بزرگوں کے سامنے سگریٹ پینا بد ترین بد اخلاقی تصور ہوتا تھا آپ بدلتی ہوئی سماجی اقدار کے ریلے میں نہ بہیں ذرا بڑے ہو جائیں ، امن پھیلانے والوں کے گروہ میں آجائیں یہاں آکر ثابت کر دیں کہ ہم پُر امن قوم ہیں جو مکالمے پر یقین رکھتی ہے۔ جمہوریت ہماری اساس ہے۔ پیار ، محبت ، ایثار ، امن ، و آشتی کی سرمایہ کاری کریں اور خواہشات کے اونٹ کو باندھنا بھی سیکھیں ورنہ ذلت اور رسوائی کے سوا جھولی میں کیا گرے گا؟



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160