کاغان کے پہاڑوں کی سیر

Posted on at


 کاغان کے پہاڑوں کی سیر اور اخروٹ کے جنگلات


معزز قارئین اکرام !  یہ واقعہ گزشتہ سال جولائی 2013 کا ہے ، میں اور  میرے چند دوستوں نے پاکستان کے نہایت ہی  ایک پر فضا مقام مَنشی کے جنگلات کی سیر جو کاغان کے پہاڑوں کے مخالف میں واقع ہے کا پروگرام ترتیب دیا۔  میرے دوستوں میں میرے ساتھ ایک ایوب ٹیچینگ ہسپتال کے معزز ڈاکٹر اور بالاکوٹ کی ایک معزز شخصیت سردار غلام ربانی جو وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں جن کا تعلق بالاکوٹ شہر سے ہے اُنہی کی تواسط سے ہم نے ان علاقوں کی سیر کا پروگرام بنایا اور ہمارے ساتھ اُس علاقے کا فارسٹ گارڈ بھی چلا گیا جس نے ہمیں علاقے میں گھومانا پھرانا تھا۔



اس دور افتادہ علاقے کو جانے کے لئے بالاکوٹ تک کا سفر تو ہم نے پبلک ٹراسپورٹ سے آسانی سے طے کر لیا لیکن بالاکوٹ سے آگے منش تک سارا سفر جو تین  تقریباً گھنٹے  کا تھا  کا سارا سفر وِلی چیپ سے طے کیا ۔ ہماری گاڑی اونچے ڈھلواں گزار پہاڑی اور نشیب و فراز اور تنگ رستے سے گزر رہی تھی جسے آگے سے آنے ولی گاڑی کی کرسنگ کے لئے کسی کھلی اور چوڑی  جگہ کھڑا ہو کر دوسری گاڑی کے لئے راستہ دینا پڑتا تھا جو ہمارے لئے بڑا خطرناک سفری مرحلہ ہوتا تھا کیونکہ نیچھے ہزاروں فٹ گہرئی کھائیاں تھیں جو ہماری نظروں کو چکرا دیتیں۔ اور آخر کار پانی بنگلہ جو فارسٹ چیک پوسٹ تھی وہاں پہنچ گئے  یہاں سے آگے گھنے جنگلات اور خوبصورت وادیوں  کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ندیاں نالے جھرنے آبشاریں اور جنگلات سے گزرتے ہوئے پرندوں کی خوبصورت آوازیں یہ نظارے ہم سب کے لئے بڑے خوشگوار اور محسور کن تھے۔  اس پرفضا مقام نے جس طرح ساری سفری تھکاوٹ اتار دی ہو۔



 


کچے اور چکنی مٹی والے درختوں کے سائے سے ڈھکی سایہ دار سٹرک کی بعض جگہوں میں بارش کی وجہ ک کیچڑ نہیں سوکھا تھا جس سے وِلیز چیپ کو بار بار فورویل لگانا پڑ رہا تھا راستے میں بعض جگہوں پر ندیوں سے گزرتے وقت گاڑی کو روڑ کی خراب حالت کی وجہ سے بڑی مشکل سے گزرنا پڑ رہا تھا یہاں کے موسمی حالات سخت ہیں اور بادلوں کے امنڈتے ہی بارش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو ندی نالوں میں طغیانی کا فوری سبب بنتا ہے۔  موسیٰ کے مصلہ کے پہاڑ کی بیس سے گزر کر ہماری گاڑی ایک گاؤں ڈبرا کے آخری مقام پر آکر رک گئی ۔ اس سے آگے کا سفر ہم نے پیدل کرنا تھا جو ایک گھنٹے کا تھا اور جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہاں صرف مضبوط جسم و اعصاب والا شخص ہی آنا چاہیے یہ پیدل سفر اسی طرح تھا جس طرح کوئی شخص کے ٹو پہاڑ سر کرنے کے لئے چڑتا ہو۔  ایک گھنٹے کی پیدل اور تھکا دینے والی مسافت کے بعد ہم لوگ اپنے ٹھکانے کے پاس پہچ گئے جہاں پر سردار صاحب کے ملازمین نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔


جہاں پر ہمارے لئے کھانے پینے کا اچھا اہتمام کیا گیا تھا۔ دہی ، لسی ، مکی کی روٹی ، لوبیے کا سالن، اور بکرے کا گوشت جو اتنے دور افتادہ علاقے میں کسی غنیمت سے کم نہیں تھا کیونکہ سفری سہولت کی درپیش مشکلات اور مشقت کے آثار وہاں کے لوگوں کے چہروں سے عیاں تھے۔ ٖغربت اور افلاس کی وجہ سے لوگوں کے خد و خال ہم جیسے شہریوں سے بالکل مختلف تھے لوگوں کی جسمانی کاٹ کمزور تو نظر آ رہی تھی لیکن درحقیقت یہ لوگ اندر سے بہت مضبوط تھے۔  ان لوگوں کا ذریعہ معاش یہ جنگلات ہیں اور پہاڑوں پر پہ در پہ بنے چھوٹے چھوٹے کھیت جہاں پر یہ لوگ مکئی اور لوبیا کی فصل کاشت کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے دل میں ان اونچے پہاڑوں ، ڈھلوانوں اور گھاٹیوں کا کوئی ڈر نہیں۔ یخ بستہ ندی نالوں اور جھرنوں کا پانی پینے،  نانے دھونے اور برتن صاف کرنے کے لئے استعمال کرتے  ہیں۔



مانشی کے جنگلات پرانے اور اونچے درختوں پر مشتمل ہیں جن میں بیاڑ، دیار، پرتل اور اخروٹ کے درخت نمایا ہیں۔  ہمارے ساتھ فارسٹ گاڈ نے چند ایک ایسے لوگوں کا دھر لیا جو اخروٹ کی چھال اور جڑے اکھاڑ رہے تھے جسے داندسہ بقول اس کے یہ لوگ اخروٹ کی جڑے کھود کر نکاتے ہیں جس سے یہ درخت کچھ عرصہ بعد سوکھ جاتے ہیں۔ دانداسہ میں میلاٹونین ایسڈ ہوتا ہے جو جلد کو نرم اور جلدی بیماریوں کو ختم کرنے لئے مفید ہے۔  دانداسے کے رنگ دیرپار سرخ رنگ اور اینٹی سپٹک ہونے کی وجہ سے مہندیوں وغیر میں سفوف کی شکل میں استعمال کیا جاتا ہے اسے کئی ایک اینٹی سپٹک مرہموں اور ادویات میں استعال کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ لوگ اخروٹ کے درخت کی جڑ کو اکھاڑ کر اس کی چھال سے دانداسہ حاصل کرتے ہیں اور شہروں میں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ فارسٹ گاڈ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے گیا کیوں ان چوروں کی تعداد کافی تھی  بمشکل ان قانوں شکن لوگوں ڈرا دھمکا کر بگایا گیا۔  اخروٹ کی جڑکی چھال کو سکھا کر دانداسہ بنایا جاتا ہے جو ادویات میں استعمال میں لایا جاتا ہے حکومت نے دانداسہ کی نقل و حرکت پر سختی سے پابندی لگائی ہوئی ہے اور جرمانے کی شکل میں سزائیں رکھی ہیں۔




بات اخروٹ کی ہو رہی تھی تو ہمارے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے چند ایک مفید باتیں اخروٹ کے پھل کی کیں جس سے ہمیں اس کی افادیت کا پتہ چلا اور ذہن میں کم از کم ہفتے میں ایک بار اسے کھانے کا ارادہ کیا۔  ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اخروٹ کی گری کا تیل انٹریوں کو نرم کر دیتا ہے جو پیٹ کے مروڑ یا درد کو رفع کرتا ہے۔ یعنی یہ قبض کشا ہے۔   لیکن اس کی گری میں ایک چکنائی ہوتی ہے جسے اومیگا فیٹی ایسڈ کہتے ہیں جو دماغ کو صحت دینے کے ساتھ ڈپریشن کو کم کرتی ہے۔ یہی ایسڈ خون کی شیرانوں سے گندا اور غیر ضروری کولیسٹرول کو کم کرتا ہے۔  جو دل سے خون کے غیر ضروری بوجھ  یا پریشر کو ختم کرتا ہے۔  کیونکہ اخروٹ ٹھنڈے پہاڑی علاقوں کی پیداوار ہے اس لئے میرے ذہن میں ان لوگوں کی صحت کا ایک راز افشاں ہوا کہ وہ اخروٹ کا پھل ہے جسے کھانے سے یہ لوگ بغیر سانس پھولے ان اونچے پہاڑوں پر بغیر رکے سفر کرتے ہیں۔ 



ایک دفعہ ایک عزیر نے مجھے اخروٹ کی پوری گری نکالنے کا طریقہ بتایا کہ فیرج کے اوپری ٹھنڈے خانے میں کچھ دیر کے لئے اخروٹ کو رکھا جائے اور پھر نکال کر توڑا جائے تو اخروٹ کی پوری گری بغیر ٹوٹے نکل آتی ہے۔  جو مہانوں کی آؤ بھگت کے طور پر پیش کرنے کا اچھا طریقہ ہے۔  اسی طرح شمالی علاقہ جات کے شہر گاگوچ میں مجھے ایسے ہی پوری گری نما اخروٹ کھانے کا اتفاق ہوا۔ ان مکمل گریوں کو شکر کے پگلے محلول میں بگو کر اور اُن کے اوپر کھانے کے تل ڈال کر پیش کیا گیا جو اپنے   ذائقے  میں بہت لذیذ لگے۔  وہ لوگ اپنے مہمانوں کے آگے بسکٹ وغیرہ رکھنے کی بجائے انہی سجاوٹی ڈرائی فروٹ سے مہمان نوازی کرتے ہیں۔


یہ حقیقت تو ڈاکٹر صاحب نے اخروٹ کھانے کی بتا دی کہ کولیسٹرول جو بلند افشار خون کا موجب بنتا ہے اخروٹ کھانے سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔  لیکن اس میں زنک اور میگنیشیم بھی پایہ جاتا ہے جس سے ہماری شہری خواتین خوب واقف ہو گی۔ حاملہ خواتین کے لئے زنک اور میگنیشیم بڑا مفید ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اخروٹ کے اندر میلاٹونین ایسڈ ہوتا ہے جس سے پرسکون نیند اور آرام مل سکتاہے اور جلدی بیماریوں کو بھی دور کرتا ہے۔



دوران علاج دمہ اور سانس  کے اگر اخروٹ کو کھایا جائے تو اس  بیماری کے جلد ختم ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ 


بگیر مانشی پہاڑی علاقے کی اونچائی سطح سمندر سے بارہ ہزار فٹ ہے اس کی چوٹی پر کھڑا ہو کر دیکھے تو سامنے مشہور سیاحتی مقام شوگران نظر آتا ہے۔ بگیر منش کے جنگلات میں اگلا پورا دن ہم نے گزارہ، یہاں پر جنگلی بکرے اور ریچھ کا بھی بتایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جنگلی مرغ بھی پایا جاتا ہے۔  لیکن ہم لوگوں نے شکار کھیلنے کی بجائے محض اس علاقوں کی سیر کی اور یہاں کے ٹھنڈے خوشگوار ماحول سے خوب لطف اندوز ہوئے جولائی کا مہینہ ہونے کے باوجود دھوپ سے اُٹھنے کا جی نہیں چاہا رہا تھا یہاں کے جنگلی رنگا رنگ پھول، آسمان کو چھوتے قد آور درخت اور ندی نالے زہن میں پیوست ہو چکے ہیں آج بھی ایک سال گزرنے کے باوجود اس پرفضا مقام کی سیر کا ایک ایک لمحہ اور پل اسی طرح دل و دماغ پر حاوی ہے۔


 


 


 



160