کیا آپریشن ضرب عزب پاکستان میں امن قائم کر پائے گا ؟ حصّہ اول

Posted on at


آخرکار بیکار بات چیت اور بالکل ناکام امن مذاکرات کے بعد پاکستان نے شمالی وزیرستان ایجنسی میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فیصلہ کن فوجی آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا جس کو ضرب عزب کا نام دیا گیا ہے
پاکستان آرمی نے اب تک جیٹ طیاروں کی مدد اور فوجی کاروائیوں کے نتیجے میں ١٨٠ طالبان ہلاک کرنے اور درجنوں دہشتگردوں کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے، شمالی وزیرستان ایجنسی سے باہر نکلنے والے تمام راستوں کو بند اور پوری ایجنسی کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے، ترجمان ای ایس پی آر کے مطابق طالبان کو مجودہ علاقے سے باہر نکلنے کا موقع کسی صورت میں نہیں دیا جائے گا



پاکستان فوج نے اس بات کا دعوه کیا ہے کہ طالبان کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے تاہم، تحریک طالبان پاکستان ان دعووں کی تردید کر رہی ہے
بی بی سی (اردو) کو ایک ٹیلی فون کال کے ذریعے طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے دعوی کیا کہ جیٹ طیاروں کی بمباری سے شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اب تک صرف چند ہی طالبان ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں
ہمیشہ کی طرح اس آپریشن کے نتیجے میں بھی سب سے زیادہ نقصان مقامی آبادی کو اٹھانا پڑا ہے اور شمالی وزیرستان ایجنسی کے وزیر اور داور قبائل کی آبادی کونقل مکانی کرنے پر مجبورکر دیا گیا ہے- اب تک ٢٠،٠٠٠ سے کے قریب لوگ افغانستان کے صوبوں خوست اور پکتیا کے ملحقہ علاقوں میں بےگھر ہو کر ہجرت کر چکے ہیں، افغان حکومت کے مطابق ٤.٠٤ مربع کلومیٹرعلاقہ ان قبائلی مہاجرین کے لیے مختص کیا گیا ہے- دیگر لاکھوں کی تعداد میں خیبر پختونخوا کے قریبی اضلاع بنوں، لکی مروت اور کرک کی طرف ہجرت کر چکے ہیں- تقریباً ٠.٦ ملین لوگوں کے بےگھر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، مہاجرین کے لیے ضلع بنوں میں کیمپ قائم کر دیے گئے ہیں- اس بار امدادی سامان کے ساتھ ساتھ حکومت نے ٧٠٠٠ روپے فی خاندان دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے



٢٠٠٩ کے سوات آپریشن کی طرح اس مرتبہ بھی فوج کو حکومت اورتمام بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے حمایت حاصل ہے، پاکستانی عوام کی اس آپریشن سے بہت زیادہ توقعات منسلک ہیں اور ایک جامع اور پائیدار امن قائم ہونے کی امید کی جا رہی ہے
یہ آپریشن یقینی طور پر کچھ مثبت تبدیلیاں ضرور لاے گا لیکن میرے خیال میں اس طرح فوجی آپریشن سے پائیدار امن کی امید رکھنا غیر حقیقت پسندانہ ہے
کیونکہ اس کے علاوہ کئی اور وجوہات ہیں جن کو بنیاد بنا کر میں یہ کہ سکتا ہوں جتنی امید کی جا رہی ہے فوجی آپریشن سے اتنا یہ کامیاب نہیں ہوگا
سب سے پہلی بات آپریشن بہت زیادہ رونے دھونے اور چیخ و پکار کے بعد شروع کیا گیا ہے جس سے تحریک طالبان پاکستان کو اپنی جانب آنے والے طوفان کا اندازہ ہو گیا، یہ نہ صرف فہم ہے یہ انتہائی ممکن ہے طالبان آپریشن سے بچنے کے لیے پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل ہو چکے ہوں- چند روز قبل ہی طالبان نے دعوی کیا تھا کہ وہ سب اور ان کی تمام اعلیٰ قیادت محفوظ ہے، اس طرح فوج کے تحریک طالبان پاکستان کے ایک بڑے حصے پر حملے کے امکانات بہت کم ہے
اگہر فوج کے دعوی کو درست مانتے ہوے تسلیم بھی کر لیا جائے کہ طالبان کو ایجنسی سے نکلنے نہیں دیا گیا پھر بھی افغانستان سے ملحقہ ٢٤٠٠ کلومیٹر لمبی سرحد (جو تمام سخت دشوار اور پہاڑی علاقہ ہے) کو سیل کرنا تقریباً ناممکن ہے- غیر روایتی جنگوں میں طالبان کی طرز کے گوریلہ جنگجو روایتی فوج کا سامنا کرنے کی جرآت نہیں کرتے، یہ لوگ زیر زمین روپوش ہو جاتے ہیں بعد میں پھر سے خود کو منظم اور اپنی مواصلاتی لائنز کو بھال کرتے ہیں اور ایک بار پھر سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیتے ہیں



اس طرح کے آپریشنز میں ایک روایتی فوج سے ہمیشہ چند ہی دنوں میں کھوئے ہوئے علاقے پر دوبارہ قبضہ کے معاملے میں ہمیشہ اہم کامیابی حاصل کرنے کی توقع کی جاتی ہے، جبکہ عسکریت پسند کچھ عرصے کے لیے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ فوج نے کامیابی حاصل کر لی ہے لیکن یہ لوگ کچھ عرصے بعد پھر سے واپسی اختیار کر لیتے ہیں- اس چیز کا ہم نے ٢٠٠٩ میں ہونے والے آپریشن رہ راست سوات اور جنوبی وزیرستان میں راہ نجات آپریشنز کی صورت میں مشاہدہ کیا ہے، حال ہی میں سنا گیا ہے کہ سوات میں فوجی اہلکاروں پر حملہ کیا گیا ہے جس کے بعد بہت سے اضلاع میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے- اور اتنے سال گزرنے کے بعد بھی سوات کے محسود قبیلے کو گھروں کو واپس کرنے کے قابل نہیں کیا گیا ہے، تو میری رائے میں ابتدائی آپریشن کی کامیابی پر اپنی امیدیں بہت زیادہ نہ لگائیں اس کا کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوگا
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس آپریشن کی صورت میں کتنی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور کب تک طالبان خاموش رہیں گے
آپریشن کتنا عرصہ چلے گا؟
کتنوں کو ہلاک زخمی یا گرفتار کیا جا سکے گا؟
کیا طالبان رہنماؤں کو ہلاک زخمی یا گرفتار کیا جا سکے گا؟
آخری لیکن سب سے ضروری بات آخر کب تک بےگھر ہوے افراد کو کیمپس میں رہنا ہوگا؟
یہ بہت اہم سوالات ہیں جن کا جواب حاصل کرنا بہت ضروری ہیں
جہاں تک طالبان کی بقا کا تعلق ہے
اس بات پہ کوئی شبہ نہیں ہے وہ اس آپریشن میں بچ جائیں گے- فوج صرف ایک ایجنسی کو ہدف بنا رہی ہے جبکہ وہ بہت بڑی تعداد میں باقی کی ایجنسییوں اور سرزمین پاکستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں بھی موجود ہیں- اس بات کا اندازہ حالیہ کراچی ائیرپورٹ پر ہونے والے حملے سے بھی کیا جا سکتا ہے، طالبان رہنما ملا فضل اللہ اور دیگر سینئر کمانڈر مبینہ طور پر پر کہیں افغانستان میں روپوش ہیں جسکا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ آپریشن سے مکمل طور پر پاکستان سے دہشت گردوں کو جڑ سے ختم نہیں کیا جا سکتا جس پر ہمیں یقین کرنے کے لئے کہا جاتا ہے
 



About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160