لڑکوں کے ساتھ جنسی زیاتی - ایک حقیقت یا افسانہ

Posted on at


جنسی استعمال کے بارے میں ایک عام تصور ہے کہ لڑکوں کے ساتھ اول تو زیاتی ممکن نہیں اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو یہ سوچ کر خود مطمئن کیا جا رہا ہے، جنسی استحصال لڑکوں کے لئے لڑکیوں کے مقابلہ میں کم نقصان دہ ہے- لیکن ہماری یہ سوچ حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتی



ایک یہ تصور بھی عام ہے کہ لڑکوں کے ساتھ زیاتی اس لئے بھی ممکن نہیں کہ وہ اپنی حفاظت لڑکیوں کے مقابلہ میں بہتر کر سکتے ہیں اس لیے لڑکوں کو ذہنی، جسمانی اور جذباتی طور پر کمزور تصور نہیں کیا جاتا- تاہم، ہم لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کم عمر لڑکے مرد نہیں ہیں وہ بھی لڑکیوں کی طرح اپنی حفاظت نہیں کر سکتے وہ بھی اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیاتی کو روکنے میں کمزور پڑھ سکتے ہیں
روزان کی سالانہ رپورٹ ٢٠١١-٢٠١٢ کے مطابق ٢،٣٠٣ بچوں کو ٢٠١١/١٢ میں جنسی زیاتی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور رپورٹ کے مطابق لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی جنسی استحصال کے خلاف لڑنے میں کمزور ہیں- ٢٠٠٦ میں شائع ہونے والی آنگن کی رپورٹ کے مطابق ٢٠٠٦ میں ٥١ فیصد لڑکیوں اور ٤٩ فیصد لڑکوں کو جسمانی زیاتی و تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا- اس کے علاوہ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ لڑکوں/لڑکیوں کے ساتھ اپنے رشتہ داروں کی جانب سے ہونے والی جسمانی زیاتی کی شرح اجنبیوں اور جان پہچان والوں کے مقابلے میں زیادہ ہے
پاکستان میں بچوں سے زیادتی کے واقعات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ کے پیچھے ایک اہم وجہ خاندان اور معاشرے کے دیگر ارکان کا اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار بھی ہے
بڑی محنت و لگن کے بعد میں جسمانی زیاتی کا شکار پانچ بچوں کوہمت دینے میں کامیاب ہو ہی گیا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیاتی اور سالوں کی آزمائش ہمیں بتا سکیں - یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ان زیاتی کے شکار بچوں میں صرف ایک لڑکی اور باقی چار لڑکے ہیں



حیدر جوکہ اب تئیس سال کا ہو چکا ہے یہ ان بچوں میں سے ایک ہے جو اپنی کہانی لوگوں کو سنانا چاہتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ اس سے دوسروں کو بھی ہمت حاصل ہوگی اور وہ بھی اپنی خاموشی کو توڑ سکیں گے
حیدر کو بعض خاندانی و گریلو مسائل کی وجہ سے پیدا ہوتے ہی چاچی نے گود لے لیا تھا، وہ صرف چار سال کا تھا جب اس کا غلط استعمال شروع کر دیا گیا تھا- اس کے ساتھ بدسلوکی کرنے والا ایک قریبی رشتہ دار اور ایک قابل عتماد شخص تھا، یہ شخص حیدر سے بہت زیادہ پیار کرتا تھا کبھی کبھی تو اپنے بچوں سے بھی زیادہ پیار کرتا- حیدر کی چاچی کو کچھ ہنگامی صورت حال میں شہر سے باہر جانا پڑھ گیا تو وہ حیدر کو اس کے ایک قریبی چچا کی نگرانی میں چھوڑ گئیں ایک ہفتہ کے لیے، حیدر صرف چار سال کا تھا
چچا نے حیدر کا بہت خیال رکھا اور وقتاً فوقتاً حیدر کو کھلونے، ٹافیاں وغیرہ بھی لا کر دیتے رہے- اس کے بعد خاندان کے باقی افراد کو بھی دو دن کے لیے کہیں جانا پڑھ گیا تو وہ حیدر کو چچا کے پاس ان کے گھر چھوڑ گئے - اس وقت سے چچا نے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی- ایک چار سالہ بچہ ہونے کے ناطے حیدر کو سمجھ نہیں تھی اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور نہ ہی وہ اس قابل تھا اس کو روک سکے، نہ ہی حیدر اس واقعہ کے بارے میں کسی کو کچھ بتا سکتا تھا
اس واقعے کے بعد چچا اکثر حیدر کی چاچی کے گھرآنے جانے لگا اور حیدر کے لئے ہر وقت چاکلیٹ اور تحائف ساتھ لاتے. اور جب کبھی بھی اس کو موقع ملتا وو جنسی زیاتی کا نشانہ بنا لیتا- حیدر جب سات سال کا ہوا تب اس کو چچا کا رویہ کچھ عجیب اور نامناسب لگنے لگا اور اس نے بات کو محسوس کرتے ہوے اکیلے ملنے سے بچنا شروع کر دیا
ایک دن حیدر اسکول سے گھر آ رہا تھا تو راستے میں چچا نے اسے روک لیا اور گھر تک اپنی گاڑی میں چھوڑنے کو پوچھا- حیدر کے انکار پر چچا نے چھری نکال لی اور جبراً حیدر کو گاڑی میں بیٹھا لیا اور ایک ویران مقام پر لے جا کر جنسی زیاتی کا نشانہ بنایا اور دھمکی دی کہ اس بارے میں وہ کسی کچھ نہ بتاۓ



صرف سات سال کی عمر حیدر نے اپنے آپ سے اس گناہ کا مرتکب ہونے کی وجہ سے نفرت کرنا شروع کر دی- حیدر نے اپنے دوستوں سے اس بارے میں ذکر کرنا چاہا لیکن انہوں نے حیدر کا مذاق اڑایا، عجیب ناموں سے اسے بلایا اور اس وجہ سے حیدر کی شخصیت اور متاثر ہو گئی
حیدر کے چچا نے اس کو جنسی زیاتی کا نشانہ بنانا نہ چھوڑا یہاں تک کہ حیدر سولہ برس کا ہو گیا تھا، اس کی چاچی پھر کسی کام کے لئے شہر سے باہر گئیں اور پھر چچا نے صورت حال کا فائدہ اٹھایا- چچا اس کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گیا جہاں اس کے چار دوست اور بھی تھے، ساری رات سولہ سال کے حیدر کے ساتھ زیاتی کی گئی- یہ سب کی مہینوں تک جاری رہا اور اس کی آزمائش اس وقت تک ختم نہ ہوئی جب تک اس کی چچی ایک اور شہر منتقل نہ ہو گئیں
اس کے بعد بھی اس کے چچا نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور مسلسل میسج اور کالز کرتا رہا
وقت گزرتا گیا کسی نے بھی حیدر کی باتوں کا یقین نہیں کیا، حیدر خاموش خاموش رہنے لگ گیا اور اپنی ڈپریشن کم کرنے کے لئے بلیڈ سے اپنے بازو کاٹنے لگ گیا
حالانکہ اس واقعہ کو اب سالوں بیت چکے ہیں لیکن حیدر آج بھی عدم تحفظ کے ساتھ رہنے اور ناقابل برداشت جذباتی اور نفسیاتی صدمے سے دوچار ہے- اس نے دو مرتبہ خودکشی کی کوشسش کی صرف اس وجہ سے کسی نے بھی اس کی باتوں پر اعتبار نہیں کیا- گھر والوں سے دلبرداشتہ اور اس بات کو دیکھتے ہوے جس انسان نے اس کی زندگی تباہ کر دی اس کی تصور اس کے گھر والوں کی نظر میں ایک شریف انسان کی ہے حیدر نے گھر والوں کو اپنی مشکلات کے بارے میں بتانا چھوڑ دیا
اس کے گھر والوں کو اس وقت دھچکہ لگا جب اس کے بھائیوں میں سے ایک جس نے نفسیات میں بیچلر کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی نے بتایا کہ حیدر نارمل نہیں ہے- انہوں نے اندازہ یہ لگایا حیدر کی یہ حالت اس کی اپنی پریشان فطرت، ڈپریشن، خود سے بات کرنے اور دوسروں سے الگ تھلگ خود رکھنے کی عادت کی وجہ سے ہوئی ہے- ستم ظریفی یہ ہے انہوں نے حیدر کی اس حالت کی خود سے وجوہات تلاش کیں، کسی نے بھی یہ نہیں سوچا آخر حیدر نے خودکشی کرنے کی کوشش کیوں کی ہے
اس طرح کی ذہنی اذیت کے باوجود حیدرآج بھی اپنے خوابوں کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے اور اس امید سے ہے کہ ایک دن وہ ان مصائب کو ختم کر لے گا- ہم سبھی کے ایسے دوست ہونگے جو بظاہر تو شاید معمول کی زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن وہ دل میں سیاہ اور تکلیف دہ راز چھپاۓ بیٹھے ہیں جن کو وہ اپنے دوستوں اور پیاروں کے ساتھ ذکر کرنے سے ڈرتے ہیں- کیونکہ ان کے دلوں میں ٹھکراے جانے کا ڈر پیدا ہو چکا ہوتا ہے- چاہے ایک لڑکا یا لڑکی ہے ، جنسی استحصال چاہے چند سیکنڈ کے لئے ہوا ہے، اس کے نفسیاتی اثرات سالوں مرد اور عورتوں پر رہتے ہیں اور ایک ہی قسم کے جذباتی صدمے سے دوچار ہوتے ہیں- اسی وجہ سے دونوں برابر کی حمایت کے مستحق ہیں



آج ضرورت اس چیز کی ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے مردوں کے ساتھ بھی جنسی زیاتی ہمارے معاشرے کا ایک گھاؤنانہ روپ ہے ہمیں اپنی "برش اٹ انڈر دی کارپٹ" خودساختہ سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا- اس طرح کی خرافات کا تدارک کرنے کے لئے ہمیں ایک ہونا ہوگا- جنسی زیاتی کا شکار لوگوں کی خاموشی توڑنے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں اپنے معاشرے سے جنسی زیاتی میں ملوث کالی بھیڑوں کو ختم کرنا ہوگا


 


 


 


 



About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160