نئی شادی اور نیا پاکستان

Posted on at


عمران خان اور ریحام خان اپنی شادی کے موقع پر

بالآخر کئی دنوں سے چلنے والی خبر بروز جمعرات تب کنفرم ہوگئی جب اسلام آباد کے علاقے بنی گالا میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور بی بی سی کی سابق اینکر پرسن اور ڈان نیوز کی اینکر پرسن ریحام خان کا نکاح ہوگیا۔

یقیناً یہ خوش خبری تحریک انصاف کے ورکروں سمیت باقی پاکستانیوں کے لیے بہت خوش آئند ہے اور جیسا کہ مختلف چینلز پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ پاکستانی خوشی سے بھنگڑے اور دھمال ڈال رہے ہیں۔

میڈیا کے مطابق نکاح کی تقریب انتہائی سادگی سے ہوئی، جس میں عمران خان کے کچھ قریبی دوستوں نے شرکت کی۔ جبکہ میڈیا کے ہی مطابق عمران خان کی بہنیں نکاح کی تقریب میں شریک نہیں تھیں، جو مبینہ طور پر اس شادی سے خوش نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ اسلام آباد میں میں کنٹینر پر دکھائی دینے والے سیاسی رہنماؤں میں سے کوئی بھی نکاح کی تقریب میں شریک نہیں ہوا۔ صرف تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق بنی گالا میں موجود تھے، جنہوں نے نکاح کی تقریب کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سفید رنگ کی شیروانی میں ملبوس تھے اور بھابھی نے بھی سفید کپڑے پہن رکھے تھے۔ اس کے علاوہ نعیم الحق کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھابھی کو ابھی کوئی تحفہ نہیں دیا مگر وہ بہت جلد اپنی نئی بھابھی کو تحفہ دیں گے۔

میڈیا کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ نکاح کی تقریب سے قبل عمران خان اور ریحام خان کا نکاح 7 محرم کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کے بھائی کے گھر انجام پاچکا ہے۔ میڈیا کی جانب سے نکاح پڑھانے والے مفتی سعید کا انٹرویو بھی نشر کیا گیا تھا جس میں مفتی سعید نے اس بات کی تردید کی تھی کہ انہوں نے ایسا کوئی نکاح نہیں پڑھایا۔

مگر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ بروزِ جمعرات ہونے والا نکاح بھی انہی مفتی سعید نے پڑھایا جن کی طرف سے پہلے تردید کی گئی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ نکاح بروزِ جمعرات ہی ہوا ہو مگر اسی مبینہ نکاح خوان سے نکاح پڑھوانا جمعرات کو ہونے والی تقریب کو تھوڑا مشکوک بنا دیتا ہے۔

نکاح کی تقریب کے بعد مفتی سعید نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی طرف سے ان کے دوست ذاکر خان اور عون گواہ تھے اور حق مہر کی رقم 80 ہزار سے کچھ اوپر طے پائی ہے۔

جمعرات کو ہونے والی نکاح کی تقریب کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ میڈیا پر آنے والی خبروں کو غلط ثابت کرنے کے لیے نکاح کی تقریب ایک دفعہ پھر بنی گالا میں ادا کی گئی ہو۔ مگر امید ہے کے نکاح جیسے معتبر فعل کو صرف دکھاوے کے لیے دوبارہ سرانجام دیا گیا ہوگا۔

ایک اور اعتراض جو مذہبی حلقوں کی طرف سے سامنے آرہا تھا، وہ یہ تھا کہ خان صاحب نے نکاح ساتویں محرم کو کیا، جب محرم کے احترام میں کوئی بھی خوشی کی تقریبات منعقد نہیں کی جاتیں۔

ہوسکتا ہے کہ مذہبی حلقوں کے اعتراضات سے بچنے کے لیے عمران خان نے بروز جمعرات نکاح کی تقریب منعقد کی ہو، جس کے بعد بروزِ جمعہ ولیمے کا کھانا غریب بچوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

لیکن ان سب اعتراضات کے علاوہ ایک اعتراض ایسا بھی تھا، جو ان کے اپنوں نے کیا۔ تحریک انصاف کے کچھ کارکنوں کا کہنا ہے کہ خان صاحب نے کہا تھا کہ وہ شادی نیا پاکستان بنانے کے بعد کریں گے، مگر انہوں نے نیا پاکستان بنائے بغیر ہی شادی کر لی۔

اس کے علاوہ کچھ حلقوں کا یہ اعتراض بھی ہے کہ عمران خان کو سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کے چہلم کا ہی انتظار کر لینا چاہیے تھا، کہ جس سانحہ کی وجہ سے انہوں نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اگر خان صاحب سانحہ پشاور کے سوگ میں کچھ اور دن انتظار کر لیتے تو اچھا ہوتا۔

بہرحال عمران خان کی جانب سے 18 جنوری سے دوبارہ احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ احتجاج کتنا عرصہ مزید جاری رہتا ہے۔ جن حالات میں عمران نے ملکی تاریخ کا طویل ترین احتجاج شروع کیا تھا، وہ حالات آج کے حالات سے کافی مختلف تھے۔ اس لیے ہم تو یہی امید کرتے ہیں کہ ملکی حالات کے پیشِ نظر 18 جنوری والا احتجاج جلد از جلد اختتام پذیر ہو، کیوں کہ ملک اس وقت دو بڑے قائدین کے درمیان محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا



About the author

160