برے نصیب "جیو" دے

Posted on at


پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی داغ بیل کا کریڈٹ بد قسمتی سے ایک ڈکٹیٹر کو جاتا ہے۔ سیاسی اور جمہوری حکمران اس "میڈیا بم" کو ایٹمی توانائی فراہم کرنے سے گریزاں رہے کیونکہ ان کے اندر بھی ایک ڈکٹیٹر چھپا ہوتا ہے اور بعض تو اس حد تک آمریت یا پھر غیر جمہوری اور غیر سیاسی قوتوں کے پر وردہ ہیں کہ اپنے ان حقیقی اور سیاسی آباؤ اجداد سے دامن اور رشتہ نہیں چھڑا سکتے۔ بہر حال "ڈکٹیٹر اعظم" نے بھی کارگل کی مہم جوئی کے دوران عالمی سطح پر اور پوری دنیا مین پاکستان کا موقف نظر نہ آنے کے باعث الیتٹرانک میڈیا کو لائسنس جاری کیے۔ یہ ایک الگ بحث ہے فی الحال تو الیکٹرانک میڈیا اور اس کے ایک مضبوط گروپ جیو کی کارستانی کہ ہر باشعور اور با ضمیر پاکستانی اور مسلمان خون کے آنسو رو رہا ہے۔

"جیو" ٹی وی کے ایک مارننگ شو میں کہ جس کی میزبان کسی زمانے میں نادیہ خان ہوا کرتی تھی  اور انہوں نے دبئی میں بیٹھ کر کسی کی خانگی زندگی کے بارے میں جب پروگرام آن ائیر کیا تو مزکورہ متاثرہ فیملی نے دوبئی حکومت سے احتجاج کیا اور یوں نادیہ خان شو جو کہ الیکٹرانک میڈیا میں جیو کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا پروگرام تھا وہ بند کر دیا گیا ۔ نادیہ خان پر کسی بھی ٹیلی ویژن پر آنے کے لئے پانچ سال کی پابندی عائد کر دی گئی جس کے بعد ڈاکٹر شائستہ لوھدی کو میزبان کے طور پر لے لیا گیا ۔

نادیہ خان کی مقبولیت اور ان کے انداز سے ڈاکٹر شائستہ احساس کمتری کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی اور وہ یہ بوجھ تو برداشت کر گئی ہو گی کہ اس نے اپنے شوہر سے طلاق لے کر ایک پروڈیوسر سے شادی رچا لی۔

بہر حال یہ تو ان کا ذاتی فعل اور کردار ہے جس پر کسی کو اعتراض کی گنجائش نہیں ہے مگر مذکورہ میزبان ایک پروگرام جو کہ اس نے وینا ملک اور اس کے شوہر کےساتھ کیا اور اس شو میں اہل بیت اطہاررضی اللہ تعالیٰ عنہہ کے بارے میں یا جس طرح اس پروگرام میں شان اہل بیت کا خیال نہیں رکھا گیا اس پر ہر شہری اور مسلمان آبدیدہ ہو گیا ہے اس پرگرام کے بعد مذکورہ ادارے سے وابستہ ایک خودساختہ اسلامی سکالر اور نام نہاد دانشور نے ایک کالم لکھا کہ جیو کی بد قسمتی اور برے دن شروع ہو گئے ہیں۔

یہ برے دن کیوں شروع ہوئے ؟ میری ناقص سمجھ اور رائے کے مطابق یہی ہے کہ جس کی گتھی کچھ دوستوں نےسلجھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد آبپارہ میں تاریخی لال مسجد میں انہوں نے نماز پڑھی اور جونہی وہ مسجد میں داخل ہوئے اس کے ایک گوشے میں کہ جہاں پر گندہ نالہ بہہ رہا تھا وہاں سے تعفن اور بد بو کے بجائے ایک خاص قسم کی خوشبو آ رہی تھی  کہ وہ دوست کہتے ہیں کہ ہم نے یہ خوشبو سونگھی تو جی چاہا کہ دنیا جہاں کے جھمیلے اور کام کاج چھوڑ کر اس خوشبو سے فیض یاب ہونے کے لئے یہیں پر بیٹھے بیٹھے زندگی گذار دیں وہ دوست بتا رہے تھے کہ لال مسجد کے صحن میں ایک تحریر نصب ہے کہ لال مسجد کے سانحے پر شہداء کے حوالے سے جیو ٹی وی نے جو کچھ کیا یہ معاملہ ہم اللہ کی عدالت پر چھوڑتے ہیں اور یوں اللہ کی بے آواز لاٹھی برس پڑی۔



About the author

shakirjan

i am shakir.i have done BS (HONORS) in chemistry from pakistan.i know english,pashto and urdu.I love to write blogs.

Subscribe 0
160