حقوق وفرائض کی جنگ

Posted on at


Madi' Blogs

 

خالق کائنات نے جب اس مخلوق کی تخلیق فرمائی تو ساتھ ہی کچھ فرائض بھی اس کے ذمے عائد کر دئیے تا کہمخلوق یہ جان لے کہ ہمارا خالق کون ہے کیونکہ جب تک یہ تصور اجاگر نہیں ہو گا کہ ہم کسی کے سامنے جوابدہ ہیں تو خالق ومخلوق کا وہ فرق ہی ختم ہو جائے گا ۔ جوابدھی اسی صورت میں ہو گی جب آپ کے ذمہ کوئی چیز واجب الاداہو گی ۔ اللہ پاک نے کلمہ طیبہ کے بعد نماز ، روزہ ، زکوةٰ ، اور حج جیسی عبادات مسلمانوں پر فرض کر دیں ۔ اور کل قیامت کے دن ان کے بارے میں باز پُرس بھی ہوگی انھیں ہم حقوق اللہ کہتے ہیں ۔ مگر اسی کے ساتھ اللہ پاک نے حقوق العباد کا ذکر بھی کیا ہے ۔ جو ایک بندے کے دوسرے بندے کے ذمے ہیں ۔ اسی طرح ہمارے دنیاوی نظام میں بھی حقوق و فرائض کا بہت بڑا عمل دخل ہے ۔ مگر آج ہر طرف حقوق کی بات تو بہت زور و شور سے کی جاتی ہے ۔ اور حقوق حاصل کرنے کےلئے مختلف تنظیمیں ، انجمنیں کام کر رہی ہیں اور ہر طرف حقوق کی بات بڑے زور و شور سے کی جاتی ہے ۔ کہیں حق چھننے کی بات کا نعرہ لگایا جاتا ہے ۔ کہیں حق بزور بازو مانگے جاتے ہیں مگر آج تک کسی بھی تنظیم یا انجمن نے فرائض کی بات نہیں کی ۔ سرکاری ادارے ہوں یا غیر سرکاری ، پرائیویٹ فیکٹری ہو یا دوکان ، ہوٹل ہو یا کوئی دفتر ہر ملازم اپنے حقوق کی بات کرتا ہوا نظر آئے گا ۔ ہر ملازم اپنے مالک سے شاکی ملے گا ۔ مگر جب ان سے ان کے فرائض کے بارے میں بات کی جائے تو وہاں پھر مکمل خاموشی ہوتی ہے کوئی بھی اپنے فرض کو پورا کرنے کی بات نہیں کرے گا ۔ یہیں سے آ کر حقوق فرائض کی جنگ چھڑتی ہے ۔ مالک اپنے ملازم سے شکوہ کرتا ہوا نظر آئے گا اور ملازم مالک سے ناخوش ۔ اس کی بنیادی وجہ حقوق کا مطالبہ اور فرائض میں غفلت ۔ اگر ملازم یہ سمجھ لے کہ جن حقوق کا میں مطالبہ کرتا ہوں ان کی ادائیگی فرائض سے جڑی ہوئی ہے ۔ تو حقوق و فرائض کی جنگ ہمیشہ کےلئے ختم ہو جائے گی ۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں حقوق کا مطالبہ اخبارات ، میڈیا اور جلسے جلوسوں کی شکل میں کیا جاتا ہے ۔ مگر آج تک کوئی ایسا واقعہ سامنے سے نہیں گزرا کہ جس میں کسی نے یہ کہا ہو کہ ہم اپنے فرائض کی ادئیگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے یا کوئی ایسی تنظیم یا انجمن نہیں دیکھی جسکا نام "تحفظ فرائض ہو۔" تحفظ حقوق " کی سینکڑوں تنظیمیں کام کر رہی ہیں ۔ اگر ان دونوں میں بیلنس قائم ہو جائے تو پھر حقوق و فرائض کا نام ایک ساتھ لیا جانے لگے گا ۔ ہمیں حقوق مانگنے پر اعتراض نہیں جہاں حقوق نہ ملیں وہاں ضرور مطالبہ کریں مگر فرائض کی مکمل ادئیگی کے بعد ۔ ورنہ اگر صرف حقوق کی بات ہوتی رہے اور فرائض میں مسلسل کوتائی ہو تو پھر ایک تناﺅ کی شکل پیدا ہو جاتی ہے جو آگے چل کر کسی بھی ادارے کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے ۔ ملکی ترقی صرف اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب ہر فرد اپنے فرائض کی ادائیگی میں سر دھڑ کی بازی لگا دے ۔ اور جس جگہ جس عہدے پر بھی کام کر رہا ہے مکمل ایمانداری اور ملکی جذبے کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر جاپان ، چین ، ملایشاء، ایران اور امریکہ کی مثالیں دی جاتی ہیں تو پاکستان بھی کسی سے کم نہیں ۔ ہاں صرف ایک فرق ہے وہ لوگ اپنے ملک کے لئے کام کرتے ہیں اور ہم صرف اپنی ذات کے لئے وہاں کام کے بعد حق طلب کیا جاتا ہے اور یہاں کام کے بغیر حق مانگا جاتا ہے ۔ آئیے ہم بھی اپنے ملک کی خاطر فرائض کی تکمیل کے بعد حقوق کی بات کریں اسی میں ہماری عزت ملکی ترقی اور ہمارے بچوں کا سنہرا مستقبل پنہاں ہے ۔ 

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ۔

For More Info Subscribe on Filmannex MadiAnnex

Facebook Madi Annex



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160