مت رو بچّے

Posted on at


فیضؔ کی نظم ''فلسطینی بچے کے لیے لوری'' میں آج کل ہونے والی اِس وحشت اور بربریت کے باعث ہونے والی تباہ کاری کی پوری منظر کشی کی گئی ہے کہ اس قیامت خیز فائرنگ میں دودھ پیتے بچے تک موت کے گھاٹ اتار دیے گئے اور اُن کے لہو میں لتھڑے ہوئے معصوم ٹکڑوں پر اسرائیلی فوج کا رقصِ ابلیس ہر آنکھ کو نمناک کر گیا۔ بظاہر یہ نظم ایک طرف تسلی دیتی ہوئی آگے بڑھتی ہے لیکن حقیقت میں یہ ہر نمناک آنکھ کے لیے امید اور ڈھارس کے حرفوں میں گندھی ایسی مہکتی مالا ہے جو حرفِ صبر بھی ہے اور آنے والے کل کے لیے آس کی تازہ کرن بھی۔
مت رو بچّے



رورو کے ابھی
تیری امی کی آنکھ لگی ہے

مت رو بچّے
کچھ ہی پہلے
تیرے ابّا نے
اپنے غم سے رخصت لی ہے

مت رو بچّے
تیرا بھائی
اپنے خواب کی تتلی پیچھے
دُور کہیں پردیس گیا ہے

مت رو بچّے
تیری باجی کا ڈولا پرائے دیس گیا ہے
مت رو بچّے
تیرے آنگن میں
مُردہ سورج نہلا کے گئے ہیں
چندر ما دفنا کے گئے ہیں

مت رو بچّے
امی، اَبّا، باجی، بھائی
چاند اور سورج
تُو گر روئے گا تو یہ سب
اور بھی تجھ کو رُلوائیں گے
تُو مُسکائے گا تو شاید
سارے
اِک دن بھیس بدل کر
تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے۔ ۔ ۔
                                                                      از :فیض ۔ ۔



About the author

Afzaal-Baig

36 years old
Male
Married
Love wife

Subscribe 0
160