مسلمانوں کی زرعی دنیا میں خدمات
مسلمان زرعی سائنسدانوں کی مہارتوں اور کارناموں کا اصل میدان ’اندلس‘ کی زرخیز و شاداب زمین ہے۔ جہاں مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک علم وادب، تہزیب و معاشرت اور تعمیر و ترقی لا زوال تاریخ مرتب کی۔ معروف یورپی مئورخ ’واٹ‘ کے حوالے سے مزکورہے کہ ’سپین میں مسلمانوں کی آمد کے قبل زراعت محدود، وسائل معیشت تنگ اور عوام مفلوک الحال تھے۔‘ مسلمانوں نے دیگر شعبوں کی طرح زراعت پر بھی توجہ دی اور تھوڑے ہی عرصے میں تمام زرخیزاراضی کو زیر کاشت لا کر زری اجناس میں اضافہ کیا۔ نئی کھادوں کا استعمال اور آب پاشی کے تمام زرایع سے استفادہ حاصل کیا۔ مسلمان ماہرین نے روئی جو کہ مشرق کی پیداوار ہے، اندلس میں متعارف کرائی۔ اسی طرح پٹ سن کی کاشت بھی شروع کی گئی جس سے اس دور کا بہترین ، مضبوط اور عمدہ دھاگا تیار کیا جاتا تھا۔
شہتوت،سپین کہ خاص پیداوار ہے۔ مسلمان ماہرین زراعت نے اس پر ریشم کے کیڑے پالنے اور ریشم سازی کا اغاز کیا۔ تقریبا تین ہزار گائوں ایسے تھے جہاں اعلیٰ قسم کا ریشم تیار کیا جاتا تھا۔ زیتون بھی سپین کی خاص پیداوار تھی۔ مسلمانوں نے اسے ایسی ترقی دی کہ بعض مقامات پر چالیس چالیس میل تک زیتون کے درختوں کے جھنڈے نظر آتے۔ زیتون کا تیل پوری دنیا میں بحری اور زمینی راستوں سے سپلائی کیا جانے لگا۔ مسلمانوں نے یہاں گنے کی شاندار کاشت کی، جس کے نتیجہ میں حیرت انگیز حد تک چینی تیار کر کے برآمد کی جاتی۔
مسلم ماہرین زراعت نے سپین میں متعدد اقسام کی اجناس، میوے اور پھل نہ صرف اگائے بلکہ ان کی حفاظت کے طریقے بھی ایجاد کیے۔ ابن العوام نامی ماہر زراعت نے پھلوں،غلے اور زیتون کو طویل مدت تک محفوظ رکھنے کے طریقے بتائے۔ یہ نامور سائنسدان بارہویں صدی عیسوی میں اپنے زرعی کارناموں کے باعث مشہور ہوا۔