اسلام میں عورت کے سیاسی حقوق

Posted on at


جہاں اسلام عورت کو تمام حقوق دیتا ہے وہاں اسلام عورت کو سیاسی حقوق کا بھی حق دیتا ہے اس لئے یہ کہنا تو بالکل غلط ہے کہ اسلام عورت کو کسی بھی طرح کے سیاسی حقوق دینے سے روکتا ہے – جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے – سورہ توبہ آیت نمبر ٧١


جس کے مفہوم کچھ پوں بیان کیا جاتا ہے کہ نیک مرد اور نیک عورتیں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں یہ اچھے کاموں کو کریں کا کہتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں، خود بھی نماز پڑھتے ہیں اور دوسروں کو بھی نماز کی تلقین کرتے ہیں – اس وجہ سے الله اور اس کے رسول ﷺ اس سے راضی ہیں


لہذا اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورتیں مرودں کی ممدون و معان ثابت ہوتی ہیں یعنی کسی بھلے اور برے کام میں وہ بھی انکی مدد کر سکتی ہیں اور انہیں مشودہ بھی دے سکتی ہیں اور اگر مرد اسے معقول سمجھتے تو اس پر عمل پیرا بھی ہو سکتا ہے اسلام عورت کو نا صرف اپنی رائے مرد کو دینے کا حق دیتا ہے بلکہ انہیں سیاسی طور پر رائے دینے کا حق دیتا ہے


  اسی طرح ایک اور آیت کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ  - اللہ تعالی  نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کو فرمایا کہ جب مومن عورتیں تمہارے پاس آئیں تو ان سے عہد لیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرایں چوری نہ کریں- زنا نا کریں اور اپنی پیدا ہونے والی بچیوں کو قتل نہ کریں کسی پر بہتان نہ لگائیں – اپنے رب کی نافرمانی نہ کریں


چودہ سو سال پہلے اس آیت میں بعیت کا لفظ استعمال ہوا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ عورتیں بعیت لے لیا کریں یعنی جو بھی سربراہ ہو اس کا حکم مان لیا کریں اور اگر وہ اس سربراہ کو پسند نہ کریں تو نیٹ نہ کریں اس طرح اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی اختیار دے دیا کہ وہ سربراہ کے بارے میں بعیت کے ذریعے اپنی پسند اور نا پسند بتا سکتی ہیں جسے ہوں آج کے دور میں الیکشن میں ووٹ کہتے ہیں اسلام کے چودہ سو سال پہلے  بعیت کا لفظ دے کر عورت کو یہ حق دے دیا کہ وہ ووٹ دے سکتی ہے لیکن دوسرے ممالک میں دیکھں تو آج بھی کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں عورت کو نا تو ووٹنگ کا حق ہے اور نہ ہی سیاست میں حصہ لینے کا – پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام میں عورت کو اس کے حقوق پورے نہیں ملتے – اسی طرح ایک دفعہ حضرت عمر راضی الله عنہہ صحابہ  کے ساتھ حق مہر کے مسلے پر گفتگو کر رہے تھے اور حضرت عمر کی خواہش تھی کہ حق مہر کی بالا حد مقرر کر دی جائے کیونکہ نو جوانوں کے لئے نکاح کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا تب پیچھے سے ایک بوڑھی عورت اٹھی اور اس نے قرآن پاک کے یہ آیت پڑھی – جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے


اگر تم پہلے عورت کی جگہ دوسری عورت لانے کا ارادہ کر لو تو اس کچھ بھی سامان یا پیسے واپس نہ لو جو تم نے اس کو دے دے ہیں


اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عام عورت کو بھی اسلام نے اس وقت اختیار دے دیا تھا کہ وہ خلیفہ وقت پر تنقد کر سکتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ وقت یا سربراہ کو غلط فصلیہ کرتا ہے تو اسلام یہ اختیار دیتا ہے کہ عورت اس غلط فیصلے یا رائے کے خلاف رائے دے سکتی ہے اور اگر میں قرآن کو آئین ماں لیں تو اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عورت کو اسلام آئین کی خلاف ورزی کی سورت میں اختلاف کا حق دیتا ہے اسی طرح عورتوں کو جہاد میں بھی ساتھ لے جایا جاتا رہا – تخ وہ زخمیوں کی دیکھ بھال کر سکیں چونکہ مرد کو عورت پر محافظ بنایا گیا ہے اس لئے عورت کو میدان جنگ میں جانے کی اجازت صرف دیکھہ بھال کے کاموں کے لئے ہے جنگ میں حصہ لیا صرف ضرورت کے تحت ہی ہو سکتا ہے


ان تمام حقائق اور اختیارات سے آپ واضح توڑ پر جان لیں گے کہ عورتوں کو اسلام کتنے حقوق ہیں اور کتنے حقوق نہیں دیتا


 



About the author

DarkSparrow

Well..... Leave it ....

Subscribe 0
160