بچوں کی صحت اور والدین کی ذمہ داریاں

Posted on at


اچھا بیج ایک تنا آور اور صحتمند درخت کی بنیاد ہوتی ہے ایک فارسی شاعر کے بقول خشتِ اول چوں نہد معمار کج،تا ثریا بود ہمہ دیوار کج یعنی جس عمارت کی پہلی اینٹ ہی معمار ٹیڑی رکھ دے بلندی تک وُہ دیوار ٹیڑی ہی رہتی ہے۔اس کو با وجود کہ ہمارے مُلک میں ڈاکٹرز اور اطباءکی کمی نہیں ایک معلوماتی سروے کے مطابق 1,27000 ڈاکٹرز 12809مراکز صحت میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیںان مراکز میں چلڈرن ہسپتال بھی موجود ہیں جن کی وارڈوں میں ہزاروں بچے زیرِ علاج ہیں۔اس کے باوجود مُختلف بیماریوں کا شکار بن کر کئی بچے ہم سے جدا ہو جاتے ہیں۔سچ ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے ،اگر والدین بچوں کی خوراک میں ایسی اشیاء کے استمعال کو ترجیح دیں جس میں وٹامنز شامل ہوں تو یہ ان کی صحت اور نشو نما کیلئے ضروری بھی ہے۔دیہات میں رہنے والے افراد میں بیشتر لوگ اس قابل نہیں ہوتے کہ وُہ اپنے بچوں کیلئے تازہ پھلوں کا انتظام کر سکیں۔اہلِ ثروت حضرات کو ان سے تعاون کرنا چاہئے۔بچوں کی خوراک میں شکم سیری سے پرہیز لازمی ہے یعنی ان کو اتنی مقدار میں کھانا ہر گز نہ دیا جائے 


جس سے ان کا پیٹ بوجھل ہو جائے اور کھانا کھا کران پر نیند کا غلبہ طاری ہو جائے۔بچوں کی غذا کے بعد انہیں صحت مند رکھنے کیلئے نفسیاتی اصولوں کو ہر گز نظر انداز نہیں کرنا چائیے۔جب والدین آپس میں لڑ رہے ہوں توان کے تلخ کلامیوں کے اثرات براہِ راست بچوں کے نا پُختہ ذہنوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ان حالات کے تسلسل سے بچے کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔انہیں کے سامنے ڈرانے دھمکانے والی باتوں سے گریز کیا جانا چاہیے۔پتنگ بازی ،عید اور شب برات پر پٹاخہ سازی سے ماضی میں کتنے نُقصانات ہو چُکے ہیں ۔کیا بہت سارے لوگ ان رسوم سے کنارہ کشی حاصل کر چکے ،ہمیں ایس ہر رسم جس سے بچوں کی صحت اور جان کو خطرہ ہو ترک کر دینی چاہئے۔کئی افرد سے میں نے سوال کیا کہ آپکو پتہ ہے کہ نسوارمضر صحت ہے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے تو ان کا جواب یہی تھا کہ صاحب بچپن کی عادت ہے اب اس سے لاکھ کوشش کر لوں چھٹکارہ حاصل کرنا مُشکل کام ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کو والدین نے ان صاحب کو نسوار کے استمعال کا مشورہ ہر گز نہیں دیا۔ظاہر ہے بچپن میں ان کے ہم عمر دوستوں نے انہیں ایک ایسے غلط کام پر لگا دیا جو آج پچھتاوے کا باعث ہے۔ہمیں بچوں کے دوستوں کے میل جول پر کڑی نظر رکھنی ہو گی۔ان کے علاج معالجہ کیلئے مُستندڈاکٹرز سے رجوع کرنا اور عطائی ڈاکٹرز سے کنارہ کشی ضروری ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے ا ن کے کپڑوں کی صفائی سُتھرائی انہیں کئی ایک جراثیم سے محفوظ رکھتی ہے۔بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس اور پولیو کے قطروں کی فراہمی سب والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔آئیے ہم سب اس چیز کاعہد کریں کہ ہم بچوں کی صحت کے حوالے سے اپنے حصے کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

For More Stuff Subcribe me on Filmannex

MadihaAwan



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160