آئی ایم ایف, تحفظات و خدشات

Posted on at


آئی ایم ایف,  تحفظات و خدشات


آئی ایم ایف ، یا انٹرنیشنل مونیڑی فنڈ ، عالمی مالیاتی ادارہ ، عالمی سامراجی قوتوں نے 1945 میں قائم کیا جس کا مرکزی دفتر امریکہ کے شہر واشٹگن میں قائم کیا گیا ، پس پردہ اس کے قیام کے مقصد کے پیچھے وہ یورپی ممالک ہیں جو دوسری جنگ عظیم میں حریف ممالک کی جنگ میں شدید متاثر ہوئے انھیں معاشی سہارا دیکر ترقی کی راہ پر گمزن کرنا تھا۔  لیکن رفتہ رفتہ اس کا دائرہ کار ساری دنیا میں پھیل گیا۔ اقوام متحدہ کے ایسے رکن ممالک جو پسمنادہ غریب ہیں بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک کو اقتصادی تکنیکی امور میں معاونت اور قرضے دیکر کر ملک کی گرتی ہوئی معاشی ساکھ کو سہارہ دینا اور ساتھ ساتھ ایسے میگا پروجیکٹ کی تکمیل کے لئے مالی معاونت کرنا جن کے مثبت نتائج عوام کے معیار زندگی کی بہتری کے لئے دور رس ہو۔



بدقسمتی سے اب یہ ادارہ عالمی سامراجی قوتوں کے ہاتھ میں ایک ہتھکنڈہ بن گیا ہے جو اپنے قیام کے مقصد کی افادیت کھو چکا ہےسامراجی قوتیں اب  اس ادارے کو اپنے مزموم مقاصد کے حصول کے لئے استعمال میں لاتے ہیں۔ اس عالمی مالیاتی اداریں نے تیسری دنیا کے عوامی مسائل کو حل کرنے کی بجائے انھیں مذید مسائل میں دھکیل دیا ہے اور آج اگر معشیت دان کی نظر سےدیکھا جائے تو تیسری دنیا کے عوام پہلے سے ابتر کی زندگیاں گزار رہے ہیں غربت کی شرح میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اور جس کی بدولت معاشرتی برائیوں نے جنم لیا ہے آج تیسری دنیا میں غربت کی عفریت کے ساتھ تحفظ عزت اور تحفظ مال کی حالت دگرگوں ہے۔


آئی ایم ایف سے قرضوں کا حصول تو آسان ہیں لیکن اس کی بھاری شرح سود کے ساتھ واپسی کئی ممالک کے عوام کی معاشی حالات کی کشتی کو ساتھ لے ڈوبی ، اس کے قرضوں سے میگا پروجیکٹ کی تکمیل عوام کے لئے صرف سہانے خوابوں تک محدود رہے ، آئی ایم ایف کو عالمی سامراجی طاقتوں نے تیسری دنیا کے غریب عوام کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے لئے بھی استعمال کیا۔


 تیسری دنیا میں بالخصوص مسلم دنیا میں سیاسی شعور کا فقدان ہے جو درپردہ سامراجی قوتوں کی خواہشات بھی ہیں کیونکہ بیشتر اسلامی ممالک تیل و گیس کے وسائل جیسی دولت سے مالا مال ہیں۔



غریب ملکوں کے اندر غربت کے آسیب کو تقویت دیکر اندر سے سیاسی انتشار، بدامنی اور بغاوت کو ہوا دینا بھی ہے جو ان ملکوں کے اندر سامراجی قوتوں کی عسکری مداخلت کا راستہ ہموار کر سکے، سرمایہ دارنہ نظام کو مضبوط کرنے کے لئے ایسی انسانیت سوز حرکتیں کرنا سامراجی قوتوں کے لئے کسی صورت شرمندگی کا باعث نہیں بنتی۔ جس کی مثالیں موجودہ حالات کے تناظر میں بہت واضح ہو گئی ہیں۔ لیبیا ، عراق ، شام ،غزہ ، افغانستان ، نائیجریا، پاکستان میں معصوم جانوں کا اندوہناک قتل عام میں سامراجی طاقتوں کے ایجنڈوں کے واضح  اشارے ہیں۔



اس انتشار اور جنگ کے مہیب سائوں سے اور آئی ایم ایف کے چنگل سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں اسلامی سربراہ کانفرس کا انعقاد کیا تھا جس میں اس وقت کے نامور اسلامی قائدین نے شرکت کی، شاہ فیصل ، صدام حسین، حافظ الاسد، یاسر عرفات ، معمرالقذفی اور ذولفقارعلی بھٹو جیسے قائدین نے اسلامی دنیا سے غربت اور بدامنی کے خاتمے کے لئے ایک سنجیدہ کاوش کی تھی جس میں اسلامی دنیا کے لئے ایک ایسا مالیاتی ادارہ بنانے کی سفارش بھی تھی جو مسلم دنیا کے ممالک کے عوام کے لئے بلا سود قرضوں کا اجرا کر سکے کیوں کہ مسلم دنیا معاشری برائیوں اور ضرویات زندگی کی اشیاء سے آزاد ہو کر ہی مسلم اتحاد کی طرف پیش قدمی کرسکتی ہے۔   لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے بچاؤ و تحفظ کے لئے سامراجی قوتوں کی طرف سے ایسی مسلم ممالک کی منصوبہ سازی کسی گھناؤنی سازش سے کم نہ تھی، بلاسود قرضوں کا اجراء سرمایہ دارانہ نظام کے لئے زہر قاتل تھی جو دنیا کی 70 اسلام ممالک کے اتحاد اور مالیاتی ادارہ کی تشکیل سے سرمایہ دارنہ نظام کی پوری عمارت کو لرزہ کر سکتی تھی  اس مقصد کے لئے سامراجی طاقتوں نے اسلامی مرکزی قیادت کو جو سرمایہ دارنہ نظام کے راستے کی بڑی رکاوٹ  بن چکی تھی کو ہٹانے کی مذموم سازش کی  آج کی صورت حال میں ماضی کے ان قائدین کی تاریخ بڑی پرسوز ، اشک بار اور سبق آموز ہے۔  



آئی ایم ایف  اور والڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے سامراجی قوتوں کی طرف سے بالعموم غریب پسمنادہ ملکوں اور بالخصوص مسلم ممالک اور پاکستان کا معاشی استحصال کیا گیا اربوں کھربوں روپے کا قرض پسے ہوئےعوام کے کندھوں پر ڈال دیا گیا مہنگائی ، روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قوت خرید سے عاری ، تعلیم و صحت کی سہولتوں کا فقدان ، بدامنی ، عزت و ناموس و جان و مال کا عدم تحفظ پسماندہ غریب ممالک میں آئی ایم ایف کی بدولت ہے جو عالمی سامراج ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔


کتنا بڑا امتیازی رویہ ہے ایک طرف اہل مغرب نے اپنے ملکوں کے اندر علم کی روشنی عام کی ، جینے کے مثبت رویے اپنائے، جمہوری قدروں کو فروغ دیا، سائنس میں ترقی کی لیکن اپنے مفادات کے لئے تیسری غریب دنیا میں سازشی کلچر کو فروغ دیا۔ جس میں کلیدی کردار عالمی مالیاتی اداروں نے ادا کیا۔



کچھ دنیا میں ابھرتی ہوئی معاشی طاقتیں آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلے کے لئے تگ و دو کر رہی ہیں دیکھتے ہیں کہاں تک ان ممالک کی کامیابی ہوتی ہے ایک منی مالیاتی ادارہ برکس کے نام سے بنا ہے جس میں ساؤتھ افریقہ، روس، برازیل، چین اور بھارت شامل ہیں۔  چین میں سرمایہ دارانہ نظام نہیں ہے لیکن باقی سارے رکن ممالک سرمایہ دارانہ نظام سے جڑے ہیں جس سے بلاسود قرضوں کا اجرا اس اداریں سے تواقع نہیں کیا جاسکتا جو غریب ممالک کی ابتر معاشی حالت کو سدھار سکے  پھر بھی ایک کوشش ہے جو قابل ستائش ہے جو آئی ایم ایف کی اجارہ داری کی سطح میں کمی ضرور لائے گا۔


 



160