فلسفہ عید

Posted on at



دین اسلام کے آنے سے پہلے بھی لوگ خوشیاں یعنی عید منایاکرتے تھے لیکن ان کے تہواراوراسلامی تہوار میںزمین وآسمان کافرق ہے جہاں اسلام کاابتدائی ظہور ہواسرزمین عرب میں مختلف قسم کے تہوار منائے جاتے تھے ان تہواروں کورقص وسرور عریانی وبے حیائی سے آراستہ کیاجاتاتھا۔جب دین فطرت اسلام کاظہور ہواتواسلام نے ان سب بے ہودوہ محفلوں کوختم کر کے اپنے ماننے والوں کودوبہترین تحفے عطا کیے جن کوہماری اصطلاح میں عیدین کہاجاتاہے یعنی عیدالفطر اورعیدالاضحی۔
سروردوعالم ±ﷺ جب ہجرت فرماکر مدینہ تشریف لائے تودیکھاکہ لوگ دودن کھیل کودمیں گزارتے ہیں نبی کریم ﷺ نے دریافت کیاکہ یہ لوگ دودن کیاکرتے ہیں ؟لوگوں نے جواب دیاکہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں ان دودنوں میں تہوارمنایاکرتے تھے ۔اس پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں دنوں کے بجائے تم مسلمانوں کوان سے بہتر دن عنایت فرمائے ہیں ایک عیدالفطردوسراعیدالاضحی(ابوداﺅد)
ایک روایت کے مطابق”ہر قوم کے لیے عید ہے اوریہ (عیدالفطر اورعیدالاضحی)ہمارے لیے عیدہے “(بخاری ومسلم )
پہلی امتیں مختلف دنوں میں عیدمنایاکرتی تھیں حضرت آدم ؑ کی امت اس دن عید منایاکتی تھی جس دن حضرت آدمؑ کودنیامیں اتارا۔حضرت ابراہیم ؑ کی امت اس دن عیدمنایاکرتی تھی جس دن حضرت ابراہیم ؑ کونمرود نے آگ میں ڈالااوران کواس آگ سے اللہ پاک نے بچالیا۔حضرت عیسیٰ ؑ کی امت اس دن عید منایاکرتی تھی جس دن اللہ پاک نے آسمان سے مائدہ نازل فرمایاتھا۔ایک حدیث میں آتاہے کہ عیدالفطر کے دن اللہ پاک اپنے بندوں کے متعلق فرشتوں سے سوال کرتے ہیں اے میرے فرشتو!اس مزدور کاصلہ کیاہے جواپنی محنت کاپوراپوراحق اداکرچکاہو؟فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے رب!اس کاصلہ تویہی ہے کہ اس کی محنت کاپوراپورامعاوضہ دیاجائے ۔فرشتوں کی اس بات پر اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں اے فرشتوتمہیں گواہ بناکر اعلان کرتاہوں کہ میں نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے والوں اورتراویح میں قیام کرنے والوں کاثواب اپنی رضااورمغفرت کوقراردیاہے انہوں نے میرافرض اداکیا(روزہ رکھا) اس کے بعد نمازعید کی شوق میں میری تعریف کرتے ہوئے عیدگاہ گئے ۔لہٰذامجھے اپنی عزت وجلال کی قسم کہ ان کی خطاﺅں سے درگزر کروں گااوران کے عیبوں کاچھپاﺅں گاجودعاکریں گے اس کوشرفِ قبولیت بخشوں گا۔اس کے بعداللہ پاک اپنے بندوں سے مخاطب ہوکر خطاب فرماتے ہیں ۔”میرے بندو!واپس جاﺅمیں نے تمہیں بخش دیا۔“اورتمہاری برائیوں کونیکیوں میں بدل دیا۔“
اے غلامانِ محمدمصطفیﷺ تم نے کبھی خیال کیاکہ پروردگارِ عالم اپنے بندوں پہ کتنامہربان ہے ۔اے رسول پاک ﷺ کاکلمہ پڑھنے والو!پروردگارِ عالم نے تمہیں بخشنے کے لیے عیدالفطر کومقررفرمایاہے عیدکی رات جاگ کر خوب خداسے مانگویہ رات پھر واپس نہیں آئے گی ۔ورنہ عید کے دن صبح سویرے جاگ کر خداسے خوب مانگیں سنت کے مطابق غسل کریں اچھے کپڑے پہن کر تسبیح پڑھتے ہوئے عید گاہ کی جانب روانہ ہوجائیں ۔عید کی نمازاداکرنے کے بعد اسی جگہ بیٹھیں ۔خطبہ عید کوخوب توجہ سے سنیں اورخوب دل لگاکر اپنے پروردگار سے دعامانگیں ۔صبح کی نماز کے بعد نہ توکوئی نفل نمازگھر میں اداکریں اورنہ ہی عید گاہ میں نہ ہی نمازعید سے پہلے اورنہ ہی نمازِ عید کے بعد۔اس پر ہم خیرالقرون کاواقعہ سناتے ہیں صحابہ کرام ؓ کابہترین اورمبار ک زمانہ تھاعید کادن تھالوگ جوقدرجوق عید گاہ کی طرف جارہے تھے اتنے میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ بھی عیدگاہ میں داخل ہوئے دیکھاکہ ایک آدمی عیدگاہ میں نفل نمازپڑھ رہاہے حضرت ابن عباس ؓ نے کہاکہ تونے یہ حرکت کیوں کی؟عیدگاہ میں سوائے عید کی نمازکے کوئی اورنمازاداکی ۔
اس نے کہاکہ میں نے نمازپڑھی ہے کوئی گناہ کاکام تونہیں کیااس پہ اللہ تعالیٰ مجھے عذاب تونہیں دے گا۔حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایاہاں ضروراللہ تجھ کوعذاب دے گااس لیے کہ جونماز تونے پڑھی ہے اس نمازکورسول اللہ ﷺ نے منع فرمایاہے پھر وہ شخص بات کوسمجھ گیا۔ہمیں بھی ہر حال ،ہر صورت اورہر وقت اس کام کوکرناہوگاجونبی کریم ﷺ نے کیااورکرنے کاحکم دیا
نمازِ عید واجب ہے جوشرائط جمعہ کی نمازکے لیے ہیں وہی شرائط عید کی نمازکے لیے ہیں ۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نمازعید کے لیے نہ آذان ہے نہ ہی اقامت ہے اورنہ ہی نمازِ عید سے پہلے خطبہ نمازِ عید ہے بلکہ نمازِ عید کے بعد خطبہ پڑھاجائے گا،خطبہ پڑھناسنت ہے اورسننے والوں پہ سنناواجب ہے ۔نمازِ عید کوجانے سے پہلے پہلے صدقہ فطر اداکرکے جائیں ۔کوئی میٹھی چیزکھاکر عیدگاہ کی طرف روانہ ہوں راستہ میں آہستہ آہستہ یہ تکبیر پڑھتے ہوئے جائیں
اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔
ایک راستہ سے جائیں اوردوسرے راستہ سے واپس آئیں ۔نیتِ نمازِعیداس طرح کریں
”نیت کی میںنے دورکعت عیدالفطر کی بمع چھ تکبیرات زائدہ کے پیچھے اس امام کے منہ میراخانہ کعبہ شریف کی طرف اللہ اکبر“تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لے
عید کی نمازکاطریقہ عام نمازکی طرح ہی ہے صرف اتنافرق ہے کہ پہلی رکعت میں ثنائ(سبحنک اللھم ۔۔۔۔الخ)پڑھ کرتین باراللہ اکبر کہے اورہربارکانوں تک ہاتھ اٹھاکراللہ اکبرکہتاہوالٹکادے ،البتہ تیسری بار نہ لٹکائے بلکہ باندھ لے اورامام کوچاہیے کہ ہردفعہ اللہ اکبر کہنے کے بعدکم ازکم اتنی دیر ٹھہرے جتنی دیر سبحان اللہ تین بارکہنے میں لگتی ہے ،مجمع زیادہ ہونے کی صورت میں ضرورت ہوتواس سے زیادہ بھی وقفہ کیاجاسکتاہے ۔پہلی رکعت میں تین باراللہ اکبر کہنے کے بعد ”اعوذباللہ ،بسم اللہ پڑھ کر امام حسب قاعدہ قرا¾ ت کرے گااورمقتدی خاموشی سے سنیں گے ،دوسری رکعت میں قرا¾ت کے بعد رکوع سے پہلے اسی طرح تین بار اللہ اکبرکہے اورچوتھی تکبیر کہتاہوارکوع میں جائے باقی عام نمازوں کی طرح نماز مکمل کرلے ۔۔۔۔۔۔
نمازعید کے بعد دعاﺅں میں تمام امت مسلمہ کویاد کریں اللہ پاک ہمارے حال پہ رحم فرمائے (آمین)


For More Subscribe @MadihaAwan



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160