چولستان کا تاریخی پسِ منظر۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ حقائق کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!۔

Posted on at


جہاں تک میں نے چولستان کے بارے میں پڑھا ہے اِس سے مجھے کچھ اندازہ ہوا ہے یہاں کے لوگوں کے رہن سہن اور زندگی کے بارے میں۔ تاریخی کتب کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاقہ دریائے گھاگرا کے قریب بہنے سے کبھی بہت زرخیز تھا۔ زیادہ پانی دستیاب ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ سرسبز و شاداب تھا۔ پہلے وقتوں میں یہاں بارش بھی خوب ہوتی تھی۔ سننے میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک غیر ملکی سیاح ہبروڈ وئیس اِس علاقے کو دیکھنے کے لئے آیا تھا۔ جب وہ یہ علاقہ گھوما تو اُس نے  پہلی مرتبہ کپاس کا مختلف نظارہ دیکھا۔ وہ اس نظارے سے بہت حیران ہوا اور جب اپنے وطن واپس گیا تو اس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ میں نے دریائے گھاگرا کے علاقے میں لگے درختوں پر اون لگی دیکھی جو میں نے اکثر پہاڑی علاقوں میں بھیڑوں کے جسم پر دیکھی ہے۔ سنا ہے کہ یہ خطہ سینکڑوں بھرے پڑے شہروں، سرسبز و شاداب انسانی بستیوں، صنعتی مراکز، بہترین دفاعی قلعے، دریائی بندرگاہیں رکھتا تھا۔

 

 جغرافیائی تبدیلیوں کی وجہ سے دریائے گھاگرا اِس طرح روپوش ہوا کہ اِس علاقے کی پوری تہذیب ہی روپوش ہو کر رہ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں کی ہوا نے ایسا رُخ بدلا کہ سینکڑوں شہروں اور بستیوں پر ریت نے اہنے پنجے گھاڑ لئے۔ اِس صحرا نے چولستان کی شکل میں ایسا رُوپ پکڑا کہ چولستانی تہذیب نے گھاگرا کا سارا پانی پی کر خود کو وجود میں لایا اور اپنی پہچان بنائی۔ اِس بارے میں جہاں تک مجھے کتابوں سے معلومات ملی ہے اُس سے یہی پتا چلتا ہے کہ ہندوؤں کی ایک مقدس کتاب بقول اُن کے ’’رگ ویداسی‘‘ دھرتی یعنی زمین پر بسے تمام چیزوں کے بارے میں لکھی گئی تھی۔ ’’رگ وید‘‘ کتاب میں دریائے گھاگرا کے کی روانی اور اِس کی خوبصورتی پر بہت کچھ لکھا گیا تھا۔ یہاں تک کہ اِس کتاب میں اِس دریا کے بارے میں مناجاتیں بھی موجود ہیں۔ پہلے دور میں ہندو ذات اِس دریا کو بہت مقدّس سمجھتے تھے۔ اور اپنے پاپ، یعنی اپنی غلطیوں کا ازالہ اِس دریا میں نہا کر ختم ہوا سمجھتے تھے۔ اِس دریا کی روپوشی یعنی جب یہ دریا غائب ہو گیا تو اِس کے بعد یہ مقدّس درجہ دریائے گنگا اور دریائے جمنا کو دیا گیا اور اِس دریا کے بعد اِن دونوں کی باری آئی۔

 

تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے پتا چلا ہے کہ صحرائے چولستان میں ۴۰۷ آثار قدیمہ دریافت ہو چکے ہیں۔ اِس صحرا میں رہنے والے لوگ کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ یہاں پر مختلف قسم کی ذاتوں کے لوگوں کا بسر تھا۔ جب محمد بِن قاسم یہاں آئے تو اُن کی آمد کے ساتھ ہی یہاں اِسلام پھیلا۔ تاریخ کے مطابق چولستان ڈویلپمینٹ اِتھارٹی ۱۹۷۴ء میں قائم ہوئی۔ اِس ڈویلپمنٹ کے تحت یہاں کے لوگوں کے لئے سب سے لمبی پائپ لائن بچھائی گئی۔ تاکہ چولستان کے لوگوں کے لئے آب رسانی کا بندوبست ہو سکے۔ تھر کی خشک سالی کے بعد وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی تھوڑی سے نظر چولستان کے خستہ حال پر پڑی۔ اِس میں کام کی لاگت کے لئے ۲ ارب ۳۷ کروڑ روپے کی ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا گیا۔ چولستان کی بہتری اور سہولتیں میسّر کرنے کے لئے تو کام اور اقدامات اب بھی اُٹھائے جا رہے ہیں لیکن اِن سب کے باوجود بھی چولستان حکومت کی خصوصی توجّہ کا طالب ہے۔ یہاں کے لوگوں کو نئے دور میں داخل کرنے کے لئے اور ترقّی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لئے اب بھی بہت عرصہ درکار ہے۔   

====================================================================

...............................................................................................................................................................
If you people want to read and share my any previous blog open the link below: 
http://www.filmannex.com/Aafia-Hira/blog_post 
Subscribe my Page Aafia Hira 

You Can Follow me on Twitter: Aafia Hira

Written By: Aafia Hira          

Thanks For Your Support Friends.
...............................................................................................................................................................

====================================================================



About the author

Aafia-Hira

Name Aafia Hira. Born 2nd of DEC 1995 in Haripur Pakistan. Work at Bit-Landers and student. Life isn't about finding your self.LIFE IS ABOUT CREATING YOURSELF. A HAPPY THOUGHT IS LIKE A SEED THAT SHOWS POSITIVITY FOR ALL TO REAP. Happy to part of Bit-Landers as a blogger.........

Subscribe 0
160