۱۴ اگست آنے کو ہے حصہ سوئم
اس سے مجھے ایک واقعہ یاد آیا کہ ہم کتنی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا جنہوں نے اس کے لیے قربنیاں دی ہیں ان سے پوچھو کی وہ کیسے یہاں پہنچے ہم جس اکیڈمی میں پڑھتے تھے ان کی والدہ صاحبہ ہندستان سے آئیں تھیں انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ جب پاکستان آئیں تھیں تو کیسے پہنچی تھی انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے پاکستان آنا تھا تو ان کے والد نے ان سب بہن بھائیوں کو زہر کی ایک تھیلی دی اور کہا کہ اگر گاڑی میں ہندو یا سکھ حملہ کرنے آئیں اور لے جانے کی کوشش کریں تو زہر کھا لینا تا کہ مجھے پتہ چل جائے کہ میری بیٹی یا بیٹا مر گئے ہیں نا کہ ان کے ظلم سہہ رہے ہیں کہتی ہیں جب وہ ریل میں بیٹھی تو سکھوں نے گاڑی پر حملہ کیا اور ہم لوگ سیٹوں کی نیچے چھپ گئے اور بچ گئے اور ہم لوگ پتہ نہیں کیسے گڈہوں پر قافلے کے ساتھ پاکستان پہنچے وہ روئی اور ایہوں نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے ہم کیسے پاکستان پہنچے اور تم لوگ بڑے آرام سے کہتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہم سے اس کی قدر پوچھو۔
اس کے علاوہ بارڈر پر بڑا جوش و خروش دیکھنے کو ملتا ہے ادھر جھنڈے کو سلامی دی جاتی ہے ویسے تو روز دی جاتی ہے مگر اس دن حاص طور پر لوگ مل کر جھنڈے کو سلامی دیتے ہیں اور لوگوں کا بڑا رش دیکھنے کو ملتا ہے لوگ ادھر انجوائے کرتے ہیں۔
ٹھیک ہے آزادی کا دن ہے ہمیں بڑے جوش و خروش سے منانا چائیے لیکن کوشش کرنی چائیے کہ کسی کو کائی پریشانی نہ ہواور نہ ہی کسی کا نقصان ہو۔