"پچھتاوا"

Posted on at


 

خواہشوں کا بھی کوئی معیار ہوا ہے

کیسی خواہش ہے کہ مٹھی میں سمندر ہوتا

اندھیرے میں بیٹھی کمرے سے باہر وہ روشنیاں، وہ رونق اسے کسی قدر بے معنی لگ رہے تھے- شہر کی پر کیف روشنی میں نہاتی وہ عمارتیں، وہ ہنگامے، شور شرابے، وہ اونچے شہر کے مکینوں کے چہروں سے ٹپکتی خوشیاں اسے بہت خود غرض لگ رہی تھیں- وہ ہنگامے وہ شور بہت پھیکے اور بے رونق لگ رہے تھے- وہ لوگ اسے بہت ظاہر پرست نظر آۓ-جن کے دل تو دنیا کے پرکیف سمندر میں خوشیاں سمیٹ لینے کے لئے ہچکولے لیتے ہیں پر انکے ضمیر کھوکھلے اور مردہ سوتے ہیں حقیقت سے غافل لوگوں پر اسے کتنا ترس آ رہا تھا کیا وہ واقعی ایسے تھے جیسے اسے لگ رہا تھا یا پھر کہیں اسے اپنا عکس انہی خوبصورت چیزوں کے پیچھے چھپا نظر آ رہا ہے اپنا مسیحا تلاش کرنے کی جستجو میں ہی شاید وہ آج اہل محفل کے چہروہ سے منافقت کا لبادہ سر کانے میں کوشاں تھی- ایسا رفیق جسکے ساتھ مل بیٹھنے سے دو گھری سکون قلب محسوس ہو- ایسا مسیحا جس کے ساتھ مل کر کعبہ کی زنجیریں ہلانے سے معافی مل جائے پر یہ شاید نہ ممکن تھا-

 

 

اس کے لئے اپنی خواہشات پہ قابو پانا کس قدر مشکل تھا- اپنی ہر نا جائز خواہش پوری کرنے کا اسے جنون تھا- اس دن بھی ایک ایسی ہی خواہش کی تکمیل میں، جو اسکے لئے آنا کا مسلہ بن گئی تھی وہ سب کر ڈالا جو اسے بہت دور ایک اندھے کنویں میں پھینک آیا گھر چوڑا، اللہ کو ناراض کیا، والدین سے قطع تعلیق کیا، غلط راستے پر گامزن ہو کر اپنی عزت تک کو پامال کیا- لیکن اسے کیا ملا؟ آج وہ تنہائی میں اپنے اپ سے مخاطب ہوئی تو سوالوں میں روانی آئی- اس کا ضمیر اسے جنجوڑتا ہوا جواب مانگ رہا تھا لیکن اس کے پاس اپنے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا- جواب تو بہت دور کھڑے، ساحل سمندر پر اسکی بے بسی کے تماشہ بین تھے- اسے پھر کہیں دور سے آواز آ رہی تھی کوئی پوچھ رہا تھا کیا پایا تم نے، صرف ایک کامیابی حاصل کرنے کی خاطر ماں، باپ اور خاندان کے منہ پر تھپڑ مار کر اپنے جھوٹے پیار کے ساتھ مل کر تمیں کیا ملا ... ملا کیا؟ ماضی کے آیئنے میں اسے اپنا عکس جووہدا نظر آیا، اسے وہ وقت یاد آیا جب وہ اپنے گھر میں نافرمانی کیا کرتی تھی- ماں باپ کی بات نہ ماننا اسکی شان میں توہین کے برابر تھا- والدین کا دل توڑنا، انہیں دکھ دینا اس کا کام بن گیا تھا- اسے آج وہ دن یاد آ رہے تھے جب اس کے جھوٹے عاشق نے اسے جھوٹے سپنے دیکھاۓ ہوۓ تھے اور وہ یہ سب سن کر آسمانوں کو جا پوہنچاتی تھی لیکن یہ اس کے ماں باپ ہی تھے جو اس کے راستے میں کھڑے تھے اسکی اماں نے کتنی بار کہا تھا کہ جب انسان ایک بار  غلط  راستے پر قدم رکھتا ہے تو ناکامی و بدنامی اسکا مقدر بن جاتی ہے- لیکن وہ کیا کسی کی بات مانتی تھی- لڑ جگڑ کر گھر چھوڑ دیا- لیکن اس نے جس کی وجہ سے گھر چھوڑا وہ اسے آدھے راستے میں ہی چھوڑ گیا سارے خواب ایک منٹ میں تور گیا  اپنے پیار کی خاطر وہ بہت آگے نکل آئی تھی اور اس پیار نے ہی اسے کہی کا نہ چوڑا- کچھ ہی دنوں میں وہ اسے چھوڑ گیا- اب وہ اکیلی تھی اور اس نے اسی شہر میں ایک کرائے کے گھر میں رہنے لگی اور ایک اسکول میں بچوں کو پڑھانے لگ گئی –

 

جب زندگی کھٹن اور تلخ ہو گئی تب اس کا ضمیر اسکے دوبدو تھا- اسے یہ بتاتے کہ اس نے غلط راستے چل کر کیا پایا؟ اور کیا کھویا؟ اس کا ضمیر اسے کہہ رہا تھا کہ اس نے صرف کھویا تھا- ماں کو باپ کو اسلام کو، رسول کو اور اس سے بڑھ کر اس خدا کو جس نے اسے تخلیق کیا، زندگی دی، خوشی دی، دولت دی عزت دی، اور بہت کچھ لیکن پھر بھی اس نے خدا کے احکامات کو ٹھکرایا، ہر حکم عددلی کی کی، ہر حد پھلانگ دی- ان سب کے بدلے اسے ملی تو ناکامی، بدنامی، خدا کی ناراضگی، والدین سے لاتعلقی، دنیا کی ذلت، آخرت کی تباہی، اسلام سے دوری اور ندامت و پچھتاوا، ایسا پچھتاوا جسکے سو اسے کائنات میں، دنیا میں اس فضا میں اور کچھ نظر نہ اتا تھا- آج اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا زمانے کے سرد گرم تھپڑ کھا کر اسکی آنکھیں کھلی-

 

اب اسے پچھتاوا تھا- ندامت تھی، غم تھا،اداسی تھی ، مایوسی تھی، بے کسی و بے بسی تھی، ویران تھا شہر اس کے لئے، اندھیرے تھے روشینیوں میں اس کے لئے منافقت نظر آئی اسے لوگوں میں اور کوئی ہم نوانہ ملا اسے شہر والوں میں، آنسو تھے کہ روکنے کا نام نہیں لے رہے تھے- آنکھوں کے پٹ بند ہونے کے نہیں اتے تھے- ہچکیاں سانسوں کو ابتر کر رہی تھیں- لیکن کوئی فائدہ نہ تھا کیوں کہ آج وہ خالی ہاتھ تھی تہی دامن تھی، اکیلی تھی، ہاری تھی، بکھری تھی اور آنسو تھے کہ ختم بس ہو رہے تھے- اس کے رخساروں پر موتیوں کی طرح لڑھک رہے تھے- بسے جا رہے تھے- بہے جا رہے تھے اسے یہ احساس دلانے کہ اس جیسا خالی ہاتھ اور کوئی بھی نہیں، اس کا رفیق کوئی بھی نہیں ہے کوئی بھی نہیں ہے- 

 

 



About the author

hamnakhan

Hamna khan from abbottabad

Subscribe 0
160