آج سے کچھ عرصہ پہلے علامہ طاہرالقادری صاحب نے خود کش بم دھمکوں اور ملکی حلات کی وجہ سے ⁴¹³ صفحات پر مشتمل فتوی جاری کیا جس کے شعاع کرنے کی تقریب میں پاکستانیوں کا اجتماع ہونے کے باوجود چند انگریذ سکیورٹی محافظوں کی وجہ سے خطاب انگریزی میں کی جس پر جھنگ کے صحافی نے بہھی اعتراضی کالم لکھا جس پر طاہرالقادری کے کارکن بہت خصے بھی ہوے. لیکن اب طاہرالقادری صاحب نے انقلاب مارچ کا اعلان کیا اور پارلیمنٹ میں جاے بغیر حکومت کا تختہ الٹنے کی بات کر رہے ہیں جبکے علامہ صاحب نے خود اپنے اس اپنے فتوے میں زکر کیا تھا کہ مسلم حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے کو سزا ملنی چاھیے علامہ صاحب کا یہ قول اور فعل کا تضاد سمج سے باہر ہے علامۂ صاحب اپنے کارکنوں سے کہ رہے ھیں کہ جو انقلاب لاء بغرض اسلام آباد سے واپس آے اسے قتل کر دو.علامہ صاحب کیا ان لوگوں کو خود فیصلہ کرنے کا حق نھیں.اگر آپ نے ہی قتل کا فیصلہ کرنا ھے تو عدالت کس لیے ھے.پولیس والوں کے لیے کیل والے ڈنڈے تیار کیے دو پولیس والوں کو قتل کیا گیا بہت سے زخمی کیے گیے ان کا کیا قصور تھا کیا وہ اپنی ڈیوٹی نہ کرتے کیا ان کے گھر کوئ ماں بہن بیٹی نبیء تھی جو معملات آرام سے ھل ھو سکتے انہے جان بوجھ کے بڑھایا گیا اسلام ہمیں کرپٹ حکومت کے خلاف مزمت کا حق دیتا ھے لیکن اسلام ھمیں خون خرابہ اور جلاؤ گھیراﺅ کی اجازت تو نھیں دیتا علامہ صاحب جب اپ نے انقلاب لاء بغیر واپس آنے والوں کوں شہید کرنے کا کرنے کا حکم دیا اس وقت آپ ھستے ھوے آپنے ایک ساتھی سے ھاتھ ملا رہے تھے شہادت ایک بہت بڑا رتبہ ھے اس کو مزاق میں مت لیں علامہ صاحب براہ مہربانی اس ملک کو امن کا گہوارہ بنایں یہاں اور زیادہ فساد نہ پھلای
علامہ طاہرالقادری اور ان کے فساد
Posted on at