تبصرہ نگاروں کے خیال میں عمران خان کو اسلام آباد آنے دیا جاے پر طاہرالقادری کو یہ سہولت نہیں ملے گی پر گورنر پنجاب کی وجہ سے علامہ صاحب کو بھی اجازت دے دی گئ آج تک کے سیاسی دور میں دو لانگ مارچ ھوے اور دونوں اپنے مقصد میں کامیاب ھوے بات یہ ھے کہ کیا یہ مارچ بھی اپنے مقصد میں کامیاب ھو گا وزیر اعظم صاحب تو ھر دوسرے دن لاھور آ جاتے ھیں تو کیا یہ استعفی لینے لاھور بھی آیں گے لیکن جو ان جلوسوں کی سپیڈ ھے نہ تو شریف صاحب کو اسلام آباد پکڑا جا سکتا ھے نہ لاھور کہیں ان کا سفر ضائع نہ جاے یہ صرف پارلیمنٹ ہاؤس دیکھ کے واپس آ جاے عمران خان اور طاہرالقادری میں سے کوئ بھی سیاست دان نھی بس ان کو سیاست کا دستر خوان خالی نظر آیا تو اس پر ٹوٹ پڑے اور بہت سے پاکستانی بھی ان کے ساتھ شامل ھو گیا اور یھ کارواں جلوس بن گی
ن جلوسوں کا جو بھی نتیجہ نکلے پر ان میں بھت سے ایسے لیڈر سامنے آ گیے جن کا سیاسی کیرئر ختم ھو چکا تھا اور وہ جس لیڈر تک پہنچ سکے اس کے پیچھے چ پڑےاس ترہ قادری صاحب اور عمران خان کے پیچھے ایک قطار بن گئ ان میں سے بعض چہروں کو دیکھ کے حیرانی ہوتی ھے کہ یہ اب تک کہاں چھپے بیٹھے تھےاور ان میں سے بعض اپنے وقت کے مشہور لوگ تھے وقت بھی کتنا بے رحم ھوتا ھے کبھی شیخ رشید اور چودھری برادران کی بہت عزت تھی اور اب وقت نے ان کا مزاق بنا کے رکھ دی
یک جلوس کے لیڈر عمران صاحب تو وزیراعظم سے استعفی مانگ رھے ھیں جبکہ قادری صاحب کا کوئ موقف ھی نھی وہ کس انقلاب کی بات کر رھے ھیں وہ خود ایک عالم ھیں وہ تو انقلاب کا مطلب آچھی طرح جانتے ھو گے بہرحال جو بھی مطلب ھو وہ اپنے موقف سے تو عوام کو آگاہ کریں کہ ان کے انقلاب کا یہ مقصد ھے فل حال تو ایسی قوم کے لیے دعا ھی کی جا سکتی ھے کہ خدا ھی ان کو ھدایت دے کہ یہ ان حکمرانوں کوپہچان سکیں