عوامی بے چینی

Posted on at


 عوامی بے چینی


یہ حقیقت ہے جن معاشروں میں بے چینی اور بد امنی ہو ادھر قدرت بھی اس معاشرے سے دست شفقت اٹھا لیتی ہے جہاں پر اللہ کی سب سے اعلیٰ اور اشرف مخلوق کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی ہو وہاں اکثر قدرتی آفات بھی دیکھنے کو ملی ہیں۔ جن معاشروں میں انسان پرامن خوشحال اور پرسکون زندگی گزار رہا ہو وہاں قدرتی آفات کا ذکر بھی کم ہی ملتا ہے۔ پرامن معاشروں میں تحمل ، قناعت برداشت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے شاہد اللہ کو بھی یہ آفاقی اصول بہت پسند ہیں۔



پاکستان کی سرزمین پر آباد انسانوں کو اللہ کے زیادہ قریب ہونا چاہیے کیوں کہ جس بنی ﷺ کے یہ انسان پیروکار ہیں اس امت کے لئے اللہ نے دنیا اور آخرت میں رحمتیں اور آسانیاں پیدا کی ہیں۔ پھر بھی جب زمینی حقائق کی بات کی جائے آج مسلمان دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہا ہے ، جتنا ظلم، بدسلوکی اور بے رحمی آج کے مسلمان سے بھرتی جارہی  ہے شاہد پہلے نہ تھی  یا شاہد پہلے ایسا ظلم ہوتا رہا ہو لیکن ذرائع ابلاغ کی فوری عدم دستیابی کی وجہ سے خبروں کی رسائی عام لوگوں تک نہ پہنچتی ہو۔ لیکن جو بھی ہو، لگتا اسی طرح ہے آج کا مسلمان اور مسلمانوں کی سرزمینیں بحرانوں اور مسائل میں گھری ہیں ۔



موجودہ ملکی حالات سیاسی فساد اور انتشار کا شکار ہیں۔ اس سیاسی انتشار کی وجہ عوامی بے چینی ہے اس بے چینی کے پیچھے زیادہ تر وہ وعدے اور بے بنیاد دعوے ہیں ایسے وعدوں میں کیا جان جن کو پایہ تکمیل تک پہنچنے کے لئے سالوں کا وقت چاہیے ، ایسے بے تکے دعوے، اسی طرح دھرے کے دھرے رہ گئے جو وقت کے حکمرانوں نے اقتدار سے پہلے کئے تھے ، یہ کہنا غلط ہو گا کہ موجودہ حالات کی بے چینی اگر کسی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ہے بلکہ یہ سب کچھ حکومت کی ناقص کاکردگی کی بدولت ہے یہ تو قانون فطرت ہے کہ اگر ساری کھڑکیاں دروازے بلی جیسے چھوٹے جانور پر بھی بند کر دیئے جائے تو وہ اس کو اسیر کرنے والے کی آنکھوں کو پڑے گی۔ تو پھر ایسا ظلم انسانوں پر ہو تو کیا شدید ردعمل اس کا فطری حق نہیں۔ جب سے موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے تقریباً ہر روز ایک نیا ڈرامہ رچایا جاتا ہے یہ کیسی جمہوریت ہے جدھر بھی بین الاقوامی دورے پر وزیراعظم جاتے ہیں خاندان سمت پورا لاؤ لشکر ساتھ ہوتا ہے ملک کی یہ مہنگائی ہے ، ایندھن کی فراہمی قلت کے سبب بند ہے ، ملک میں بنیادی ضرورت کی اشیاء کا بحران ہے ، گندم جیسی فصل ایک زرعی ملک سے جاگیراروں کی ملی بھگت سے غائب کر دی جاتی ہے صرف اور صرف نرخ کو بڑھانے کی خاطر، تو کیا ایسے ملک میں تبدیلی کے لئے اور ظالم حکمرانوں کو ہٹھانے کے لئے عوام سڑکوں پر نہیں آئے گی ورنہ ان ظالم حکمرانوں کا بس چلے عوام کو بھوکا نہ مار دیا جائے ۔ بے چینی کی وجہ حکمرانوں کی طرف سے عوام کو گمراں کرنا ہے ، کاش حکمران عوام کے سامنے دوران انتخابات جھوٹے دعوے کرنے کی بجائے یہ کہہ دیتے بحرانوں کا حل مہینوں میں نہیں بلکہ اس کے لئے لمبا وقت درکار ہوتا ہے .


 


 نیت و المراد، جیسی نیت ویسا ہی انجام، حرص اقتدار اور قوم کی دولت کی لوٹ کھسوٹ کی روایات کا سلسلہ اس بار تھم جائے گا، یہ بھی ممکن ہے اس دفعہ اسلام آباد کی سڑکیں معصوموں کے خون سے رنگین ہو جائے۔ سارے جاگیردار، سارے سرمایہ دار اور ساری حکومتی اشرافیہ ہر ممکن کوشش کریں گی کہ عوام غلامیت کا طوق اپنے گلوں میں سجائے رکھے۔ سرمایہ دار کو ویسے بھی ساری دنیا میں عزت و اکرام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور سوئس بینک کے اکاؤنٹ ہر وقت ایسے بدعنوان عناصر کے لئے کھلے رہتے ہیں۔ حتمی امکان نظر آ رہا ہے اس دفعہ تن من دھن کی بازی لگا کر پسی ہوئی عوام اپنی حقیقی آزادی حاصل کر لے۔


************************



160