ویلڈن شعیب ملک

Posted on at


مجھے آپ سے ایک مشورہ کرنا ہے، دراصل میں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا سوچ رہا ہوں، والدہ، اہلیہ اور دیگر قریبی شخصیات سے بھی رائے لے لی، سب متفق ہی ہیں، آپ کیا کہتے ہیں‘‘ شارجہ ٹیسٹ شروع ہونے سے قبل جب شعیب ملک نے فون پر مجھ سے یہ باتیں کیں تو میں حیران رہ گیا، ہمارے ملک میں کوئی کھلاڑی سنچری بھی کر جائے تو اگلے 6 ماہ یا سال تک ٹیم میں اس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا، شعیب نے تو حال ہی میں ڈبل سنچری بنائی ہے، گوکہ اس کے بعد وہ بیٹنگ میں پرفارم نہ کر سکے مگر تیسرے میچ میں اب تک6 وکٹیں لے کر افادیت ثابت کر چکے، وہ ٹیم میں سیٹ ہونے کے بعد ایسا کیوں سوچ رہے ہیں یہ میں نہیں سمجھ پایا تھا، شعیب نے میری حیرت بھانپ لی وہ کہنے لگے ’’دراصل میں چاہتا ہوں کہ نوجوان کھلاڑیوں کو زیادہ موقع ملے، میں ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کیلیے خود کو زیادہ کارآمد محسوس کرتا اور ان دونوں طرز میں کھیلتے رہوں گا‘‘ ان کی باتوں سے میں سمجھ چکا تھاکہ وہ پکا ارادہ کر چکے اور اب پیچھے نہیں ہٹیں گے اور پھر یہی ہوا شارجہ ٹیسٹ کے دوران ہی شعیب نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا،یوں ایک نئی مثال قائم ہو گئی کہ ہمارے کسی کھلاڑی نے اپنے عروج کے دور میں کھیل کو خیرباد کہا،اس فیصلے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، سب سے اہم یہ کہ وہ ٹیسٹ میں واپسی کیلیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے مگر دیگر طرز میں عمدہ کھیل کی بدولت سلیکٹرز نے انگلینڈ کیخلاف سیریز کیلیے منتخب کر لیا۔ طویل عرصے بعد پانچ روزہ میچز کھیلتے ہوئے شاید وہ اتنا اطمینان محسوس نہیں کر رہے ہوں، ایسا ہی کام شاہد آفریدی نے بھی کیا تھا انھوں نے بھی جب سمجھاکہ ٹیسٹ کھیل کر لطف اندوز نہیں ہو رہے تو ریٹائر ہو گئے تھے، شعیب کے ٹیسٹ ٹیم میں آنے کا سب سے بڑا نقصان فواد عالم کو ہوا تھا، اگر آل رائونڈر کی فارم اتنی اچھی نہ ہوتی تو ابوظبی ٹیسٹ میں ان کی جگہ فواد کو ہی کھلایا جاتا،اسی طرح صہیب مقصود جیسے کئی کرکٹرز بھی لائن میں موجود ہیں، ایسے وقت میں جب ’’بزرگ‘‘ کرکٹرز ٹیم کو چھوڑنے کو تیار نہیں تو شعیب کے جانے سے کم از کم ایک نوجوان کو تو موقع ملے گا، اس لیے ان کے اس فیصلے کو سراہنا چاہیے۔ شعیب ملک انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کے بعد بالکل مختلف شخصیت نظر آتے ہیں، کھیل کے ساتھ ان کی ذات میں بھی کئی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں، اب وہ زیادہ تحمل مزاج اور مین مینجمنٹ بھی سیکھ چکے ہیں، ماضی میں جب وہ کپتان بنے تب ایسے ہوتے تو ناخوشگوار انداز میں قیادت کا اختتام نہ کرنا پڑتا، ان تبدیلیوں میں کچھ نہ کچھ ہاتھ ثانیہ مرزا کا بھی ہے۔ کچھ عرصے قبل جب اسپورٹس اسٹارز کی اس جوڑی نے مجھے چائے پر مدعو کیا تھا تو میں نے ثانیہ سے یہ بات کہی کہ ان سے شادی کے بعد شعیب بدل گئے ہیں،انھوں نے بھی شرارت بھرے انداز میں اپنے شوہر سے پوچھا تھا کہ ’’اچھا پہلے تم کیسے ہوا کرتے تھے‘‘۔ قومی ٹیم کے منیجر انتخاب عالم نے بھی گذشتہ دنوں ابوظبی میں ملاقات کے دوران یہ کہا تھا کہ شعیب بطور کرکٹر اور انسان تبدیل ہو چکا ہے،اس کا فائدہ انھیں کرکٹ میں بھی ہوا اور کم بیک کے بعد سے عمدہ پرفارم کر رہے ہیں،اب ان کے پاس موقع ہے کہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی پر بھرپور توجہ مرکوز رکھ کر ٹیم کو فتوحات دلائیں، واپسی کے بعد شعیب پر غیر ضروری دبائو ہی رہا، بعض لوگ ثانیہ مرزا سے ان کی شادی پر حسد کا شکار ہوئے، کوئی کہتا کہ وہ سفارش کی بنیاد پر اسکواڈ میں واپس آئے مگر شعیب نے عمدہ پرفارمنس سے سب کو خاموش کر دیا۔ ایک طرف شعیب ملک ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہو رہے ہیں دوسری جانب یونس خان نے ون ڈے میں واپسی کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا،وہ بہت عظیم بیٹسمین ہیں مگر انداز مختصر طرز کی جدید کرکٹ سے مطابقت نہیں رکھتا،سلیکٹرز میڈیا کے دبائو میں انھیں منتخب کر تو رہے ہیں مگر واضح طور پر کوچ وقار یونس اس فیصلے سے خوش دکھائی نہیں دیتے،اس کا آگے چل کر ٹیم کو نقصان ہو گا،یونس کا ون ڈے کھیلنے پر اصرار مجھے تو انا کا مسئلہ لگتا ہے۔ وہ اپنے کیریئر کا ناخوشگوار انداز میں اختتام نہیں چاہتے، ان کی خواہش ہے کہ مختصر طرز میں بھی بڑی اننگز کھیلیں شاید ایسا ہونے کے بعد وہ ازخود ون ڈے کرکٹ چھوڑ دیں، مسئلہ یہ ہے کہ وقار یونس بھی بڑے انا پرست ہیں، ورنہ یونس اور وہ ساتھ بیٹھ کر بات کر لیتے تو بہت سے مسائل حل ہو جاتے،اس معاملے میں سلیکشن کمیٹی بھی خاصی کمزور واقع ہوئی جس سے دبائو برداشت نہ ہو سکا،پہلے مصباح نے اسپنرز کی کمی کا شکوہ کیا تو سلیکٹرز فوراً اسپنر بھیجنے کو تیار ہوگئے، پھر اضافی وکٹ کیپر مانگا تو وہ بھی بھیج دیا حالانکہ رضوان کے شارجہ ٹیسٹ کھیلنے کا ایک فیصد بھی امکان نہ تھا۔ ان فیصلوں سے سلیکٹرز نے خود ثابت کر دیا کہ ان کا منتخب شدہ ابتدائی اسکواڈ متوازن نہ تھا، دوسری جانب مصباح الحق اوروقار یونس نے اب شور مچایا مگر جب ٹیم منتخب ہو رہی تھی تب کیوں احتجاج ریکارڈ نہ کرایا تھا، سلیکشن کمیٹی کو اپنی اتھارٹی دکھاتے ہوئے اگر یونس خان کو ون ڈے اسکواڈ میں شامل کرنا ہے تو ویسے ہی کر لیتی، مگر ہارون رشید ’’مشاورت‘‘ کیلیے شارجہ چلے گئے جس سے بورڈ کے لاکھوں روپے خرچ ہوئے، ویسے پی سی بی کا کوئی بدنصیب ہی افسر ہو گا جو حالیہ سیریز کے دوران یو اے ای کی سیر نہ کرسکے، ایک ایک کر کے سب جا ہی رہے ہیں۔ سپر لیگ کی میٹنگز کیلیے تو نجم سیٹھی ہر چند روز کے بعد اپنی 6،7رکنی ٹیم کے ساتھ وہاں موجود ہوتے ہیں، آخری دورے سے 3،4دن قبل ہی واپسی ہوئی ہے، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آڈٹ میں بورڈ حکام کے دبئی ٹورز پر ہی کئی کروڑ روپے کے اخراجات ظاہر ہوں گے، شاید ایسے ہی اقدامات کے سبب خزانہ خالی ہو رہا اور حکام بھارت کے سامنے سیریز کیلیے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں، انھیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ورنہ معاملات مزید بگڑ جائیں گے۔



About the author

160