ایک نیا حیرت انگیز انکشاف ؛ ٹائٹینک حادثے کے مجرم جب بچ نکلے

Posted on at


پُاسرار تنظیم،فری میسنری کے ’’بھائیوں‘‘ نے ایک دوسرے کو بچانے کی خاطر تاریخ ِانسانی کے نہایت المناک واقعے کی چھان بین نہ ہونے دی…چشم کشا انکشافات ۔ فوٹو : فائل

جم موریسن امریکا کا مشہور گلوکار و شاعر گزرا ہے۔ اس کا قول ہے :’’جو میڈیا کو کنٹرول کرے، وہ لوگوں کے ذہن کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘ اس قول پر مغربی میڈیا بخوبی پورا اترتا ہے… وہ اتنا طاقتور ہوچکا کہ اب بدی کو نیکی اور اچھائی کو برائی میں بدلنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔

مثال کے طور پر حال ہی میں امریکی شہر، سان برنارڈینو میں ایک مسلمان جوڑے نے فائرنگ کرکے چودہ افراد مار ڈالے۔ یہ واقعہ جنم لیتے ہی خصوصاً امریکی میڈیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا شروع ہو گیا۔کہا جانے لگا کہ اسلام مسلمانوں کو دہشت گرد بننے پر اکساتا ہے۔ مغربی میڈیا یہ حقیقت کم ہی واضح کرتا ہے کہ پچھلے ڈیڑھ دو سو سال سے امریکا، برطانیہ، فرانس جیسی استعماری قوتوں نے عالم اسلام میں کیا خوفناک غدر مچا رکھا ہے۔ ان کی پالیسیوں ،سازشوں اور مسلم دشمنی کے باعث ہی مسلمان اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے۔

سونے پر سہاگہ یہ کہ مغربی میڈیا اپنے ممالک کی خامیاں اور کمزوریاں چھپانے کی بھر پور سعی کرتا ہے۔ مثلاً واقعہ سان برنارڈینو سے صرف ایک ہفتہ قبل یہ دلدوز انکشاف ہوا کہ برطانیہ میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے حادثہ ٹائی ٹینک کے اصل مجرموں کو بچایا گیا۔ یہ نہایت حیرت انگیز اور روح فرسا خبر تھی کیونکہ انسانی تاریخ میں حادثہ ٹائی ٹینک ہولناک ترین حادثوں میں شمار ہوتا ہے۔

برطانوی میڈیا نے تو اس خبر کو کچھ نمایاں کیا، مگر امریکیوں نے اسے گھاس تک نہ ڈالی۔ حالانکہ حادثے میں بیشتر مقتولین امریکا سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ منافقت اور بے حسی مغربی میڈیا کو جانب دار ہی نہیں مجرم بنا ڈالتی ہے۔ وہ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں تو نہایت سرگرم رہتا ہے، مگر اپنی کوتاہیوں، جرائم اور گناہ سامنے آئے، تو خاموشی سے پی جاتا ہے۔ حادثہ ٹائی ٹینک بھی ایک ایسا ہی گناہ ہے جس نے 1500 سے زائد انسانوں کو قیمتی زندگیوں سے محروم کر ڈالا۔

ٹائی ٹینک کی تباہی حادثہ نہیں جرم تھا جس نے انسانی لالچ و ہوس کے بطن سے جنم لیا۔ مگر برطانوی اور امریکی حکومتوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے اس جرم کے مرتکب مجرموں کو بچالیا کیونکہ وہ بااثر اور امیر تھے۔ چناں چہ 1500 سے زائد انسان مرگئے، مگر اس سنگین جرم میں ملوث ’’ایک مجرم‘‘ کو بھی سزا نہیں مل سکی۔ یہ مجرم اس لیے بھی بچ نکلے کیونکہ وہ پس پردہ رہ کر مصروف کار رہنے والی ایک پُراسرار تنظیم’’ فری میسنری‘‘ کے بھی رکن تھے۔

یاد رہے،فری میسنری کا ہر رکن یہ حلف اٹھاتا ہے کہ وہ اپنے ’’بھائی‘‘ کی ہر حال میں مدد کرے گا ،چاہے اسے قانون بھی توڑنا پڑے۔اس ساری المناک داستان کی کہانی ڈرامائی ہے اور سبق آموز بھی۔ یہ واضح کرتی ہے کہ امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک میں بھی جہاں بظاہر قانون وانصاف کا بول بالا ہے،بااثر اور طاقتور افراد اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھا کر قانون کو پیروں تلے کچل ڈالتے ہیں۔

٭٭

انیسویں صدی کے اواخر تک دنیا بھر میں لاکھوں افراد بحری جہازوں کے ذریعے سفر کرنے لگے۔ چناں چہ مسافر بردار بحری جہاز چلانا منافع بخش کاروبار بن گیا۔ اس وقت امریکی سرمایہ کار، جے پی مورگان دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک تھا۔ اس نے کوششیں کیں کہ بحر اوقیانوس کے بحری اسفار پر اپنی اجارہ داری قائم کرلے۔ چناں چہ 1900ء تا 1902ء اس نے یکے بعد دیگرے امریکا اور برطانیہ کی وہ کئی کمپنیاں خرید لیں جو مسافر بردار جہاز چلاتی تھیں۔ انہی میں ٹائی ٹینک بنانے والی برطانوی کمپنی، وائٹ سٹار لائن بھی شامل تھی۔

883 فٹ لمبا اور 46 ہزار ٹن وزنی ٹائی ٹینک اپنے زمانے میں دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز تھا۔ اس کو لگژری جہاز کے طور پر بنایاگیا۔ جب یہ برطانوی بندرگاہ، سائوتھ ہمپٹن سے نیویارک روانہ ہوا، تو اس پر 2435 مسافروں سمیت 3327 افراد سوار تھے۔14 اپریل کو رات پونے بارہ بجے جہاز ایک برفانی تودے سے جاٹکرایا۔ تودے نے جہاز کے پیندے کی فولادی چادر پھاڑ ڈالی۔ جیسے ہی پانی جہاز میں داخل ہوا، وہ اگلے پونے تین گھنٹے میں ڈوب گیا۔ حادثے میں 1490 تا 1635 قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔

اس سانحے کو تب ’’حادثہ‘‘ ہی قرار دیا گیا۔ برطانوی اور امریکی حکومتوں نے حادثے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بٹھائے۔ انہوں نے ’’انسانی غلطی‘‘ کو بنیادی وجہ قرار دیا…یہ کہ کپتان اسمتھ سمیت پورا عملہ برفانی تودے سے لاحق خطرے کا اندازہ نہیں لگا سکا۔

1985ء میں سمندر میں ڈوبے ٹائی ٹینک کے دونوں حصّے دریافت ہوئے۔ ماہرین فلزیات نے جب پیندے کے فولادی ٹکڑوں کا سائنسی تجزیہ کیا، تو انکشاف ہوا کہ فولاد غیر معیاری تھا۔ اسی لیے جب تودہ ٹکرایا، تو پیندے کا فولاد مڑا نہیں، ٹوٹ گیا۔ اس انکشاف نے لوگوں کے کان کھڑے کردیئے۔ انہیں محسوس ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

مزید تحقیقات سے یہ امر نمایاں ہوا ہے کہ جہاز میں صرف بیس زندگی بچائو کشتیاں موجود تھیں، اتنی کہ 1200 مسافروں کو لے جاسکیں۔ اسی لیے ہر مسافر کشتی میں سوار ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ چناںچہ جہاز میں افراتفری مچ گئی۔ اس ہنگامے میں بعض لوگ کشتیوں پر چڑھتے ہوئے نیچے بھی جاگرے۔ دراصل جے پی مورگان ٹائی ٹینک میں زیادہ سے زیادہ لگژری سروسز دیکھنا چاہتا تھا تاکہ امرا کا دل خوش ہوجائے۔ اس نے حکم دیا کہ جہاز میں صرف 20 زندگی بچائو کشتیاں رکھنے کی جگہ ہی رکھی جائے۔ یوں جو جگہ بچی وہ آرائش و زیبائش کی اشیا لگانے میں استعمال ہوئی۔

ایک گروہ کی عالمی حکومت

مختلف کتابوں اور رسائل کا مطالعہ کرتے ہوئے اکثر یہ دعوی سامنے آتا ہے کہ طاقتور و بااثر شخصیات کا ایک گروہ پس پردہ رہتے ہوئے ’’عالمی نظام حکومت ‘‘ چلا رہا ہے۔ اسی گروہ کے احکامات پر انقلاب آتے ‘ حکومتیں تبدیل ہوتی اور جنگیں جنم لیتی ہیں۔حتیٰ کہ دنیا کے ہر ملک میںمذہبی ‘ تہذیبی اور ثقافتی تبدیلیاں لانے کا ذمے دار بھی یہی خفیہ گروہ ہے۔ قدامت پسند مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ پچھلے دو ڈھائی سو برس سے یہی گروہ مذہب کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ اسی نے مادر پدر آزاد تہذیب و ثقافت کو فروغ دیا اور مادہ پرستی کو بھی جس نے عظیم انسانی اقدار سادگی ‘ قناعت‘ رواداری ‘ صبر وبرداشت تہس نہس کر ڈالیں۔

مسلم مورخین کا دعویٰ ہے کہ عالمی سیاسی و معاشرتی نظام کنٹرول کرنے والے اس خفیہ گروہ نے برطانیہ‘ دیگر یورپی ممالک اور امریکا میں جنم لیا۔ یہ گروہ اپنا ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ دنیا والوں پر تھوپنا چاہتا تھا۔ ماضی میںاسے ’’فری میسنری‘‘ اور ’’الومناتی‘‘ کہہ کر پکارا گیا۔ تب بادشاہ ‘ وزیر ‘ نواب‘ جنگی سردار اور بنیے اس گروہ کے رکن تھے۔جب دو سو سال قبل صنعتی انقلاب شروع ہوا‘ تو اس گروہ میں صدور اور وزرائے اعظم کے علاوہ سرمایہ دار‘ بینکار اور کاروباری (کارپوریٹ لیڈر) بھی شامل ہو ئے۔

اس گروہ کی مختلف شاخیں ہیں مثلاً بلڈربرگ گروپ‘ بوہمین کلب‘ کلب آف روم‘ کونسل آن فارن‘ ریلیشنز ‘ رہوڈس ٹرسٹ‘ سکل اینڈ بونز وغیرہ ۔ مسلم دانش وروں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس گروہ میں یہود کی کثرت ہے۔ یہ صہیونی یا انتہا پسند یہودی دنیا بھر میں اپنی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ منزل پانے کی خاطر انہوں نے کچھ اصول وضع کیے جو ایک کتاب ’’دی پروٹوکولز آف دی ایلیڈز آف صھیون‘‘ میں درج ہیں۔

لیکن مغرب اور عالم اسلام کے کئی مورخین و دانش وروں کا دعویٰ ہے کہ یہ مفروضہ یا سازشی نظریہ ہے کہ کوئی گروہ خفیہ طور پر اپنی عالمی حکومت قائم کرنا چاہتاہے۔ وہ کہتے ہیں،ماضی و حال میں خفیہ تنظیمیں ضرور وجود میں آئیں لیکن ان کا دائرہ اثر عالمی سطح پر محیط نہیں اور نہ ہی وہ کوئی انقلاب برپا یا حکومتیں تبدیل کرتی ہیں۔

سو سال بعد انکشاف
مگر اب افشا ہوا ہے کہ کم از کم فر ی میسنری برطانیہ اور امریکا میں طویل عرصہ سیاہ و سفید کی مالک رہی ہے۔ خاندان کی تاریخ سے متعلق مشہور ویب سائٹ ’’اینسٹری‘‘ (Ancestry.com) نے حال ہی میں ایسے ’’بیس لاکھ‘‘ افراد کی فہرست شائع کی ہے جو 1733ء تا 1923ء فری میسنری کے رکن رہے۔ ان افراد میں کئی امریکی صدور‘ برطانوی وزرائے اعظم‘ جرنیل‘ جج ‘ سرکاری افسر اور پولیس افسر شامل ہیں۔

گویا اس فہرست نے تصدیق کر دی کہ دنیا کے سیاسی‘ مذہبی‘ معاشرتی اور ثقافتی حالات حسب منشا انجام دینے کی خاطر حکمران طبقوں کی تنظیمیں یا اتحاد خفیہ طور پر کام کرتے رہے ہیں۔اور ممکن ہے،اب بھی سرگرم عمل ہوں۔ آج بھی دنیا بھر میں ’’60لاکھ‘‘ افرا د فری میسزی کے رکن ہیں۔ ان میں سے تین لاکھ امریکا‘ ڈھائی لاکھ برطانیہ ‘ دو لاکھ فرانس اور بقیہ مختلف ممالک میں بستے ہیں۔

درج بالا فہرست ہی سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ ٹائی ٹینک بنانے اور چلانے والی کمپنیوں کے مالک فری میسنری تھے ۔پھر ٹائی ٹینک ڈوبنے کے اندوہناک حادثے کے بعد مجرم پکڑنے کی خاطر جو سرکاری کمیشن بیٹھا، اس کے اکثر ارکان بھی فری میسنری تھے۔ اسی لیے ایک نہایت سنگین حادثہ جنم لینے کے باوجود اصل (فری میسنری ) مجرم سزا سے بچ گئے۔

اس سنگین حادثے کا ایک بڑا مجرم برطانیہ کا بورڈ آف ٹریڈ (وزارت تجارت) تھا۔ اسی بورڈ نے ٹائی ٹینک کو سمندر میں ڈالنے کی اجازت دی حالانکہ اس میں صرف 20 زندگی بچائو کشتیاں موجود تھیں ۔جبکہ ضروری تھا کہ دنیا کے سب سے بڑے مسافر بردار بحری جہاز میں کم از کم ستر اسّی کشتیوں کی جگہ مخصوص ہوتی۔

ٹائی ٹینک حادثے کی تحقیقات امریکا اور برطانیہ میں بیک وقت انجام پائیں۔ امریکی تفتیش کاروں نے برطانوی بورڈ آف ٹریڈ ہی کو حادثے کا موجب ٹھہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹائی ٹینک کی مالک کمپنی، وائٹ سٹار لائن اپنے تعلقات کے بل پر جہاز کو بورڈ آف ٹریڈ سے منظور کرانے میں کامیاب رہی۔ حالانکہ زندگی بچائو کشتیوں کی شدید کمی کے باعث وہ سفر کے قابل نہ تھا۔

اب افشا ہوا کہ تب برطانوی بورڈ آف ٹریڈ کا سربراہ، لارڈ سڈنی بکسٹن فری میسنری تھا۔ اسی وزیر تجارت نے ٹائی ٹینک ڈوبنے کی تحقیقات کرنے والی جو کمیٹی بنائی، اس کا سربراہ لارڈ مرسے (Lord Mersey) کو بنایا۔ یہ بھی فری میسنری تنظیم سے تعلق رکھتا تھا۔یہی نہیں کمیٹی کے پانچ ارکان میں سے دو اہم رکن، پروفیسر جان ہارورڈ اور سینئر انجینئر، ایڈورڈ چیسٹن بھی فری میسنری تھے۔ ان سبھی فری میسنریوں کے نام شائع ہونے والی فہرست میں شامل ہیں۔

فہرست آشکار کرتی ہے کہ لارڈ ولیم پایری (Lord Pirrie) بھی فری میسنری سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ برطانوی صنعت کار ہارلینڈ اینڈ ولف ہیوی انڈسٹریز کا مالک تھا۔ اسی کمپنی نے بیلفاسٹ بندرگاہ میں ٹائی ٹینک تعمیر کیا۔ یہی لارڈ ولیم ٹائی ٹینک کی مالک وائٹ سٹار لائن کمپنی کا ڈائریکٹر بھی تھا۔

گویا ایک سوسال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد اب انکشاف ہوا ہے کہ برطانوی فری میسنریوں نے مل کر ٹائی ٹینک حادثے کی ذمے داری انسانی خطا پر تھونپ دی جبکہ وہ خود معصوم و بے خطا قرار پائے۔ یہ عمل قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ اور ان سیکڑوں بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور مردوں پر ظلم بھی جو ٹائی ٹینک حادثے میں اپنی قیمتی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

برطانوی صحافی، نک کامپٹن نے ٹائی ٹینک حادثے کی وجوہ جاننے کے لیے عرق ریزی سے تحقیق کی ہے۔ اسی تحقیق کی بنیاد پر اس کی کتاب ’’ٹائی ٹینک آن ٹرائل‘‘(Titanic on Trial) تین سال قبل سامنے آئی۔ وہ حالیہ انکشاف کے متعلق کہتا ہے:’’برطانیہ میں حادثے کی تفتیش ’’خانہ پری‘‘ کے انداز میں ہوئی۔ وجہ یہی تھی کہ حادثے کا موجب بننے والی طاقتور شخصیات کو مجرم نہ ٹھہرایا جائے۔ دوران تفتیش ٹائی ٹینک کے صرف تین مسافروں سے انٹرویو کیا گیا اور وہ سبھی فرسٹ کلاس کے تھے۔‘‘

نک بتاتا ہے ’’حتیٰ کہ ٹائی ٹینک کا کپتان،ا سمتھ بھی بے گناہ قرار پایا۔ کمیٹی کا کہنا تھا کہ برفانی تودے کے قریب سے دیگر بحری جہاز بھی تیزی سے گزرتے رہے ہیں۔ برطانوی کمیٹی کی چھان بین کے دوران سب سے زیادہ تنقید بحری جہاز، کیلی فورنین کے کپتان پر ہوئی۔‘‘ (جب ٹائی ٹینک ڈوب رہا تھا، تو کیلی فورنین صرف 8 میل دور موجود تھا۔ لیکن کپتان سمیت عملہ جہاز نے ڈوبنے والوں کی کوئی مدد نہ کی)۔

افشا کردہ فہرست میں جے پی مورگان کا نام شامل نہیں، مگر وہ بھی سّکہ بند فری میسن تھا۔ یہ ممکن ہے کہ اس کا نام دانستہ فہرست میں شامل نہیں کیا گیا کیونکہ پھر ٹائی ٹینک حادثے کی سازش پوری طرح بے نقاب ہوجاتی۔یہ واضح ہے کہ اخراجات کم سے کم رکھنے کے لیے مورگان کے حکم پر ٹائی ٹینک میں غیر معیاری فولاد اور اسٹیل استعمال ہوا۔ اگر جہاز کا پیندا معیاری ہوتا، تو وہ تودے سے ٹکرانے پر ٹوٹتا نہ بلکہ مڑجاتا۔ یوں تصادم سے پیندے میں چھوٹے سوراخ بھی جنم لیتے، تو بدقسمت جہاز زیادہ گھنٹے تیرتا رہتا۔ یوں تقریباً سبھی مسافروں کی جانیں بچالی جاتیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ ٹائی ٹینک 14 اپریل کی رات تیز رفتاری سے چل رہا تھا۔ وجہ یہ کہ جے پی مورگان اپنے جہاز کو لگژری ہی نہیں تیز رفتار بھی ثابت کرنا چاہتا تھا۔ مقصد یہی تھا کہ زیادہ سے زیادہ مسافر اسی کے جہازوں کو ترجیح دیں۔

بعض امریکی محققین کا تو دعویٰ ہے کہ جے پی مورگان نے ایک سازش کے تحت ٹائی ٹینک کو ڈبویا۔ وجہ یہ کہ مورگان امریکا میں بینکاری کا نیا نظام (فیڈرل ریزرو) قائم کرنا چاہتا تھا۔ مگر تین طاقتور امریکی شخصیات… جان جیکب آسٹر، بنجمن گگنہیم اور عیسیٰ سٹراس اس نظام کے مخالف تھے اور یہ تینوں ٹائی ٹینک پر سوار تھے۔

چشم کشا بات یہ کہ جے پی مورگان نے بھی ٹائی ٹینک پر سفر کرنا تھا۔ اس کے لیے پورا ایک لگژری کمپارٹمنٹ مخصوص تھا ۔ مگر جب اسے معلوم ہوا کہ اس کے تین طاقتور مخالف جہاز پر سفر کر رہے ہیں‘ تو اس نے بہانہ بنایا اور ٹائی ٹینک پر سوار نہیں ہوا۔ اس کے تینوں مخالف ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ یوں فیڈرل ریزرور بینک کے قیام کی راہ ہموار ہو گئی۔ گویا اپنے مفادات کی خاطر جے پی مورگان نے 1500بے گناہ انسان مار ڈالے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو یہ مورگان کو سفاک قاتل بنا دیتی ہے۔

تاریخ کے اسرار
فری میسنری اور الومناتی کے مخالف دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ دونوں تنظیمیں مذہب کو نیست و نابود کرنے کی خاطر وجود میں آئیں ۔ ان کا اصل مقصد دنیا میں انسان ساختہ اصول و قوانین کو رائج کرنا ہے تاکہ مذہبی واخلاقی قوانین کا خاتمہ ہو جائے ۔ ان دونوں تنظیموں کی تاریخ حیرت انگیز اور تعجب خیز ہے۔

یہ 1075ء کی بات ہے جب مغربی کلیسا (رومن کیتھولک کلیسا) کے سربراہ اور ایک سو ستانویں پوپ‘ گریگوری ہفتم نے اعلان کیا کہ پوپ ایک بادشاہ کو ہٹانے کی قدرت رکھتا ہے ۔اس اعلان نے پوپ کو دنیائے مغرب میں سب سے طاقتور شخصیت بنا دیا ۔ مگر اس اعلان کو مقدس سلطنت روما کے بادشاہ‘ ہنری چہارم نے قبول نہیں کیا۔ چناںچہ بادشاہ اور پوپ کے مابین تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔

یہ مناقشہ پھر اتنا بڑھا کہ پوپ گریگوری ہفتم نے ہنری چہارم کو عیسائیت ہی سے خارج کر دیا۔ جواب میں بادشاہ نے ایک اور پادری‘ گوئی برٹ کو کلمینٹ سوم کے خطاب سے نیا پوپ بنوا دیا۔ 1084ء میں گریگوری ہفتم مر گیا‘ توا س کے حمایتیوں نے 1088ء میں ایک فرانسیسی پادری ‘ اوڈو نامی کو اربن دوم کا خطاب دے کر نیا پوپ بنوا دیا۔

پوپ اربن دوم اب یورپی ممالک میں گھومنے لگا تاکہ عوام کو اپنا حمایتی بنا سکے۔ اس نے عوام کے مذہبی جذبات سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوششیں کیں تاکہ اپنے مسائل کا حل نکال سکے۔ اسی کوشش کے بطن سے پہلی صلیبی جنگ نے جنم لیا۔

اس وقت مشرقی کلیسا کے عیسائی بازنطینی سلطنت میں زندگی گزار رہے تھے۔ تبھی سلجوقی مسلمان بازنطینی سلطنت پر حملے کرنے لگے۔ وہ قسطنطنیہ فتح کرنا چاہتے تھے۔ پوپ اربن دوم یہ چرچا کرنے لگا کہ مسلمان بازنطینی عیسائیوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔( اس الزام میں صداقت بہت کم تھی) لہٰذا مغربی کلیسا کے لوگوں کو اپنے ہم مذہبوں کی مدد کرنا چاہیے۔ یوں عوم اور یورپی نوابوں کے مذہبی جذبات مشتعل کر کے اس نے اچھی خاصی فوج کھڑی کر لی۔ اسی فوج کے ذریعے پہلی صلیبی جنگ کا آغاز ہوا اور یورپی 1099ء میں یروشلم پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہے۔

1118ء میں یورپ کے نو جنگجوئوں نے یروشلم میں ایک عسکری تنظیم کی بنیاد رکھی جو تاریخ میں ’’نائٹ ٹیمپلر‘‘ کے نام سے معروف ہوئی۔ یہ جنگجو بظاہر یروشلم آنے والے عیسائی مسافروں کو دوران راہ تحفظ فراہم کرنا چاہتے تھے لیکن ان کا اصل مقصد ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات میں کھدائی کرنا تھا۔

یہ جنگجو قدیم علم، قبالہ کے طالب علم تھے۔ قبالہ ایک پُر اسرار علم ہے۔ اس کی بنیادیں کنعان، بابل اور مصر کے ان افراد نے رکھیں جو کالے جادو کے ماہر تھے۔ بعدازاں اس علم کو یہود نے ترقی دی۔مخصوص اعداد، اشارے اور علامتیں قبالہ کی رسومات اور جادو میں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ درج بالا آٹھ صلیبی جنگجوئوں کو یقین تھا کہ ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات میں سے انہیں قبالہ کی کتب اور آثار مل جائیں گے۔

1860ء میں برطانوی فوج کے دو انجینئروں نے حرم الشریف کے نیچے کھدائی کی۔ وہ ایک سروے کرنا چاہتے تھے۔ تبھی انہیں سرنگوں کا جال نظر آیا۔ یہ سرنگیں انہی نو نائٹ ٹیمپلروں نے کھودی تھیں۔ خیال ہے کہ انہیں ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات سے خاصے آثار و نوادر ملے تھے اور ایسی کتب بھی جن میں کالے جادو اور پُراسرار رسومات کے متعلق معلومات درج تھیں ۔

قبالہ کی کتب پاکر نائٹ ٹیمپلر پُراسرار رسومات کے گورکھ دھندے میں پھنس گئے۔ وہ کالا جادو سیکھ کر غیر معمولی طاقتیں حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یوں پھر وہ دنیا کے حاکم بن سکتے تھے۔ نائٹ ٹیمپلر کالا جادو سیکھ کر فوق البشر تو نہ بن سکے، مگر ان کے جانشینوں میں آج تک یہ تصّور ضرور پنپ رہا ہے کہ دنیا پر حکمرانی کرنے کا دیرینہ خواب پورا کیا جائے۔

ان نائٹ ٹیمپلروں نے یورپ جاکر دوسرے لوگوں کو بھی طاقت اور دولت پانے کے سہانے سپنے دکھائے۔ لہٰذا بہت سے لوگ اس عسکری تنظیم میں شامل ہونے لگے جس کی بظاہر ذمے داری یروشلم آنے والے زائرین کا تحفظ کرنا تھا۔ حقیقتاً یہ تنظیم دنیا کے تمام وسائل پر قابض ہوکر کرہ ارض کی حکمران بننا چاہتی تھی۔

انسان فطری طور پر دولت اور طاقت چاہتا ہے۔ اسی لیے تنظیم سرعت سے پھیلی اور چند برس میں ارکان کی تعداد کئی ہزار تک پہنچ گئی۔ 1128ء میں پوپ نے اسے مذہبی عسکری تنظیم کے طور پر تسلیم کرلیا۔ یہ منظوری پاکر نائٹ ٹیمپلر کی شہرت و عزت میں اضافہ ہوگیا۔

1139ء میں یوپ انوسینٹ دوم نے یہ حکم نامہ جاری کیا کہ نائٹ ٹیمپلروں پہ کسی ملک کے مقامی قانون لاگو نہیں ہوتے۔ گویا ٹیمپلروں کو یورپ کے ہر ملک میں آزادانہ گھومنے پھرنے کا پروانہ مل گیا۔ وہ صرف پوپ کے سامنے جواب دہ تھے۔ اس حکم نامے نے بھی عسکری تنظیم کی طاقت میں بے پناہ اضافہ کردیا۔

نائٹ ٹیمپلروں نے صلیبی جنگجوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مال غنیمت میں بھی سب سے بڑا حصّہ انہی کو ملتا۔ چناں چہ محض نصف صدی میں نائٹ ٹیمپلر یورپ کی سب سے بڑی عسکری اور مالیاتی تنظیم بن گئی۔ یہی دنیا کی پہلی ملٹی نیشنل کمپنی بھی تھی جس کے وسائل بے پناہ تھے اور جو تجربے کارا ور تربیت یافتہ ملازموں کی فوج رکھتی تھی۔

تیرہویں صدی تک نائٹ ٹیمپلر تنظیم سے پونے دو لاکھ یورپی وابستہ ہوچکے تھے۔ ان میں سے 25 ہزار نائٹ یا گھڑ سوار جنگجو تھے۔ یہ تنظیم یورپ بھر میں وسیع و عریض جائیدادوں، قلعوں، گرجاگھروں اور فارموں کی مالک تھی۔ حتیٰ کہ جب دو یورپی ممالک جھگڑ بیٹھتے تو یہی تنظیم ان کے مابین تصفیہ کراتی۔

قبالہ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے تنظیم کا ڈھانچہ اسرار و رموز پر مبنی تھا۔ بیرونی لوگوں کو قطعی علم نہ تھا کہ تنظیم میں کام کیسے ہوتا ہے۔ اسی کا سردار ’’گرینڈ ماسٹر‘‘ کہلاتا۔ جبکہ نائبین کو ’’ماسٹر‘‘ کہا جاتا۔ ان ماسٹروں کا حکم ’’خدا کا لفظ‘‘ تھا جسے نائٹ ٹیمپلر ہر صورت انجام دیتے۔ تنظیم میں نہایت چھان پھٹک کر نئے ارکان شامل کیے جاتے۔

اس زمانے میں بیرون ممالک کا سفر کئی خطرات رکھتا تھا۔ اکثر راہ میں ڈاکو مال لوٹ لیتے۔ رفتہ رفتہ لوگ اپنی نقدی نائٹ ٹیمپلروں کو دینے لگے۔ جب وہ اپنی منزل پر پہنچتے تو نقدی انہیں واپس مل جاتی۔ بدلے میں تنظیم تھوڑی سی فیس وصول کرتی۔ یوں نائٹ ٹیمپلر بینکار بن بیٹھے اور سود بھی لینے لگے۔

رفتہ رفتہ نائٹ ٹیمپلر اتنے طاقتور ہو گئے کہ فرانس کا شاہ ،فلپی پنجم انہیں اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھنے لگا۔ چنانچہ اس نے پوپ کلیمنٹ پنجم پر دباؤ ڈال کر 1307ء میں تنظیم پر پابندی لگوا دی۔تبھی نائٹ ٹیمپلروں نے قسم کھائی کہ وہ رومن کیتھولک کلیسا کو تباہ کر کے چھوڑیں گے۔ چناںچہ انہوں نے بعدازاں مارٹن لوتھر کا ساتھ دیا جو رومن کیتھولک کلیسا کا مخالف تھا اور جس نے ایک نئے عیسائی فرقے‘ پروٹسٹینٹ ازم کی بنیاد رکھی۔

کئی نائٹ ٹیمپلر یورپ بھر میں پھیلی معماروں کی تنظیموں (mason guilds) میں شامل ہو گئے۔ انہوںنے تنظیموں میں قبالہ کی مخصوص رسومات و علامات متعارف کرائیں۔ سترہویں صدی میں نائٹ ٹیمپلروں نے ہم خیال معماروں کی مدد سے فری میسنری کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کا مقصد یورپ میں ’’آزاد خیالی‘‘ کو پروان چڑھانا تھا …ایسے مادر پدر آزاد نظریات و خیالات جو انسان کو مذہب سے برگشتہ کر دیں اور اس میں مادہ پرستانہ جذبات کو فروغ دیں۔ 1776ء میں سابق فری میسنوں نے ایک نئی تنظیم‘ الومناتی کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے عزائم، سرگرمیاں اور نظریات بھی فری میسنری سے مماثلت رکھتے ہیں۔

ان تنظیموں کو یہودی بنیوں خصوصا جرمن روتھ شیلڈ خاندان سے سرمایہ ملا۔ یہ یہودی پوشیدہ طور پر عیسائی مذہب کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔ پھر یورپ میں جنگوں کی کثرت ان کے سودی کاروبار کو بڑھاوا دیتی تھیں۔ لہٰذا فری میسنری اور الومناتی کو سرمایہ فراہم کر کے یہودی بستیوں نے ایک تیر سے دو شکار کھیلے۔مغرب میں مذہب کے خلاف نفرت پروان چڑھائی اور جنگوں کے ذریعے ارب پتی بن بیٹھے۔

یہ فری میسن اور الومناتی ہی ہیں جنہوںنے فرانسیسی انقلاب برپا کیا۔ نیز امریکا کو علیحدہ مملکت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی کوششوں سے یورپ میں مادہ پرستی کو فروغ ملا اور سرمایہ داری پنپنے لگی۔ مادہ پرستی نے پھر دنیا بھر میں ایسا رواج پایا کہ مذہب اور اخلاقیات ،دونوں کو بہت ضعف پہنچا۔ اسی لیے آج بہت سے انسانوں کا مقصدِ زندگی ہر حال میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانا بن چکا ہے۔



About the author

160