مسلمانوں کا دامن جدید تخلیقی صلاحیتوں سے خالی کیوں؟ دیسی لبیرلز کا ایک سوال

Posted on at


دین سے بیزار لوگ علما کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس خیال کا اظہار کرتےہیں کہ علما اور مدارس والوں نے اُمت سے تخلیقی صلاحیتیں چھین کر محض فقہی مسائل تک محدود کر دیا ہے اور مسلمان پچھلے 2 یا 3 سو سال سے کوئی قابل ذکر چیز ایجاد نہ کرسکے۔۔۔۔
اس حوالے سے میں اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ اس میں قصور علما کا نہیں، آپ جیسے لبرل عناصر کا ہے جنہوں نے نظامِ تعلیم کو دو الگ حصوں میں تقسیم کر دیا۔۔۔ ایک طبقہ وہ ہے جو محض مدارس تک محدود ہے جنہیں جرح و تعدیل، علم فقہ، علم التفسیر اور علم الحدیث جیسے بہت سارے علوم پہ تو مہارت حاصل ہے لیکن باقی دنیوی اُمور سے لا علم ہیں حتی کہ گھر میں کوئی لیٹرآئے تو اس بات سے بعض اوقات لابلد ہوتے ہیں کہ یہ عدالت کا نوٹس ہے یا کسی بچے کا ماہوار رزلٹ کارڈ۔۔۔۔۔۔
اور دوسرا طبقہ وہ ہے جسے ملک کی کریم کہا جاتا ہے، جو اپنی زندگیاں یونیورسٹیوں میں کھپا دیتے ہیں اور دین سے اسقدر لاعلم ہوتے ہیں کہ ماسٹرذ کے ڈگری ہولڈرز کو غسل کے فرائض تک معلوم نہیں ہوتے، کلمہ پڑھیں تو اُس میں غلطیاں نکل آئیں، سورۃ سنائیں تو قرآن صحیح طرح پڑھنا نہیں آتا ہوتا، دعائے قنو ت سنی جائے تو وہ نہیں آتی۔۔۔
سوچنے کی اور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب اس طرح کے انجینرز، ڈاکٹرز، سیاست دان اور وکلا (جن کی اکثریت سورہ اخلاص صحیح پڑھنےپہ قادر نہیں ) جن کا مطمع نظر محض دنیاوی خواہشات کے لئے تن من دھن لگا دینا ہے اور جو اپنے رب کے ساتھ وفا نہیں کرتے، رب کے حقوق ادا نہیں کرتے، وہ اعلٰی عہدوں تک پہینچیں گے تو وہ کیونکر لوگوں سے وفا کریں گے ؟ وہ کیونکر لوگوں کی خدمت کریں گے؟ اور پھراس پر مستزاد یہ کہ قوم اور ملک پہ حکومت کرنے والے یہی لوگ جو دوسرے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، بعد میں سوال علماء سے کرتے ہیں کہ جی سائنسی ایجادات میں مسلماںوں کی طرف سے کوئی حصہ کیوں نہیں ڈالا جارہا۔۔۔۔۔
بھئی اب تمہی بتاو، یہ "مُلا" اور "مسٹر" کی تقسیم کرکے ، مسجد اور یونیورسٹی میں خلیج پیدا کرکے تم اس بات کی توقع رکھتے ہو کہ مبنر پہ بیٹھنے والا شخص تمہیں نماز کا طریقہ بھی بتائے اور آئنسٹائن کی تھیوری آف ریلٹویٹی (Einstein's Theory of Relativity) بھی سمجھائے۔۔۔ تمہیں علم التفسیر بھی سکھائے اور ساتھ ویب ڈیزائننگ(web Designing) کا طریقہ بھی سکھائے۔۔ اور اس بات کی توقع رکھتے ہو کہ کسی مدرسے والے، جن کا ناطقہ بند کرنے میں کوئی کسر آٹھا نہ رکھی گئی، وہ خلائی تحقییقاتی ادارے کا کا م بھی سر انجام دیں۔۔ اب ایسی عقل پہ بندہ ماتم کے سوا اور کیا کرسکتاہے۔۔۔؟
اور غلطی سے اگر کوئی بیچارہ یونیورسٹی والا دین کی طرف بڑھنے لگتا ہے اور مسجد و یونیورسٹی کے اس بارڈر کو ختم کرنے کی کوشش کر ہی لیتا ہے تو پہلا پتھر گھر کے خیرخواہ دے مارتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ دنیا کو وہ چیزیں دکھاؤ جن کی دنیا کو طلب ہے نہ کہ وہ جو out dated ہیں۔۔۔۔۔

آازبندہ نادان "محمد ذوالقرنین"



About the author

160