حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہٗ

Posted on at


حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہٗ سے کسی نـے پوچھا کہ آپ کو حضورِ اقدس ﷺ سے کتنی محبت تھی, آپ نـے ارشاد فرمایا کہ خدائے پاک کی قسم ! حضور ﷺ ہم لوگوں کے نزدیک اپنے مالوں سے اور اپنی اولادوں سے اور اپنی ماؤں سے اور سخت پیاس کی حالت میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب تھـے (الشفاء)

حضرت اَنس رضٰی اللہ عنہ فرماتــے ہیں کہ حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد هــے کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کو میری محبت اپنـے باپ اور اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو جائـے (مسلم )

ایک صحابی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئـے اور عرض کیا کہ آپ ﷺ کی محبت مجھـے میرے جان و مال اور اہل وعیال سے زیادہ هــے میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں اور آپ ﷺ کا خیال آ جاتا هــے تو صبر نہیں آتا یہاں تک کہ حاضر ہوں اور آ کر زیارت نہ کر لوں۔ مجھـے یہ فکر هــے کہ موت تو آپ ﷺ کو بھی اور مجھـے بھی ضرور آنی ہی هــے, اس کے بعد آپﷺ تو انبیا ءؑ کے درجے پر چلے جائیں گے تو مجھـے یہ خوف رہتا هــے کہ پھر میں آپ کو نہیں دیکھ سکوں گا۔ حضور ﷺ نـے اس کے جواب میں سکوت فرمایا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلا م تشریف لائے اور یہ آیت سنائی۔
وَمَنْ يُّطِعِ اللهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِٰٓكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِٰٓكَ رَفِيقاًo ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللهِ وَكَفَىٰ بِاللهِ عَلِيمًاo (سورۃ النساء :۶۹)۔
ترجمہ:- جو شخص اللہ اور رسول ﷺ کا کہنا مان لے گا, تو ایسے اشخاص بھی جنت میں ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا یعنی انبیاءؑ اور صدیقین اور شہداء, اور صلحاء اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں اور ان کے ساتھ رفاقت محض اللہ کا فضل هــے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والے ہیں ہر ایک کے عمل کو‘‘۔

ایک حدیث میں هــے صحابہ رضی اللہ عنہم نـے عرض کیا :- یا رسول اللہ ﷺ ! یہ تو ظاہر هــے کہ نبی کو امتی پر فضیلت هــے اور جنت میں اس کے درجہ اونچے ہوں گے تو پھر اکٹھا ہونے کی کیا صورت ہو گی۔ حضور ﷺ نـے ارشاد فرمایا کہ اوپر کے درجہ والے نیچـے کے درجہ والوں کے پاس آئیں گے, ان کے پاس بیٹھیں گے بات چیت کریں گے۔ حضور ﷺ کا ارشاد هــے کہ مجھ سے بہت محبت کرنے والے بعض ایسے لوگ ہوں گے جو میرے بعد پیدا ہوں گے اور ان کی یہ تمنا ہو گی کہ کاش ! اپنے اہل و عیال اور مال کے بدلے میں وہ مجھـے دیکھ لیتے۔ خالد کی بیٹی عبدہ کہتی ہیں کہ میرے والد جب بھی سونے کیلئـے لیٹتـے تو اتنے آنکھ نہ لگتی اور جاگتـے رہتے, حضور ﷺ کی یاد اور شوق و اشتیاق میں لگے رہتے اور مہاجرین و انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کا نام لے کر یا د کرتے رہتے اور یہی کہتے کہ یہی میرے اصول و فروع ہیں (یعنی بڑے اور چھوٹے) اور ان کی طرف میرا دل کھنچا جا رہا هـــے۔ یا اللہ ! مجھـے جلدی موت دے دے کہ ان لوگوں سے جا کر ملوں اور یہی کہتے کہتے سو جاتے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے ایک مرتبہ عرض کیا:- یا رسول اللہ ﷺ ! مجھـے اپنے باپ کے مسلمان ہونے کی نسبت آپ کے چچا ابوطالب کے مسلمان ہو جانـے کی زیادہ تمنا هـــے اس لئے کہ اس سے آپ ﷺ کو زیادہ خوشی ہوگی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نـے ایک مرتبہ حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ کے اسلام لا نے کی مجھـے زیادہ خوشی هــے اپنے باپ کے مسلمان ہونے سے, اس لئے کہ آپ کا اسلام حضور ﷺ کو زیادہ محبوب هــے(المعجم الکبیر)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ رات کو حفاظتی گشت فرما رہے تھے کہ ایک گھر میں سے چراغ کی روشنی محسوس ہوئی اور ایک بڑھیا کی آواز کان پڑی جو اون کو دھنتی ہوئی اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے کہ محمد ﷺ پر نیکوں کا درود پہنچے اور پاک صاف لوگوں کی طرف سے جو برگزیدہ ہوں ان کا درود پہنچے۔ بیشک یا رسول اللہ ! آپ راتوں کو عبادت کرنے والے تھـے اور اخیر راتوں کو رونے والے تھے, کاش ! مجھـے یہ معلوم ہو جاتا کہ میں اور میرا محبوب کبھی اکٹھے ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ اس لئے کہ موت مختلف حالتوں میں آتی هــے نہ معلوم میری موت کس حالت میں آئے اور حضور ﷺ سے مرنے کے بعد ملنا ہو سکے یا نہ ہو سکے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ بھی ان اشعار کو سن کر رونے بیٹھ گئے (تایخ ابن عساکر)



About the author

160