چلا آئے گا یوں وہ گلاب آُٹھائے Posted on 26 April 2016 at 21:34 چلا آئے گا یوں وہ گلاب آُٹھائے چلا آئے گا یوں وہ گلاب اُٹھائےکہ ہوں گے سنگ سنگ عذاب اُٹھائے اور دے دے گا ہاتھوں ہاتھ مجھےآنکھوں میں حسیں خواب اُٹھائے کھینچ لی اُس نے پیروں سے زمیںپھول تھے میں نے بے حساب اُٹھائے شاید کبھی ڈوب جائے نظروں میںہیں آنکھوں میں مسلسل آب اُٹھائے نہ سوچا تھا جو حالِ اخیر کبھینہ سوچ کر ہی ظلم واضطراب اُٹھائے ہوں ہزاروں دل والے‘ہمت والا وہیجو لاکھوں میں حسن و شباب اُٹھائے ہوتا ہی نہیں حکمران دماغ دل پہ کبھیورنہ کیوں نہ کوئی پے در پے ثواب اُٹھائے تجھ سے کیا چھپانا‘ اے تحریرِ دِلچلا آئے گا لفظوں میں شراب اُٹھائے ہم چاہیں اک عمر کا رونا اُس آنکھ میںکہ پچھتائے وہ جب بھی میری کتاب اُٹھائے