سپین کی تاریخ اور مسلمان

Posted on at



سپین بر اعظم یورپ کا اہم تاریخی ملک ہے، سپین دنیا بھر میں اپنے مشہور شہروں، میڈرڈ، بارسلونا، غرناطہ کے علاوہ تاریخی اعتبار سے مسجد\قرطبہ،قصر زہرہ،اور الحمرا کے محلات کی وجہ سے جانا پہچانا جاتا ہے۔


اسلامی تاریخ میں سپین اندلس کے نام سے مشہور ہے جبکہ سلطنت روما والے اس ملک کو ہسپانیہ کہتے تھے، یہ جرمن قوم واندلس سے موسوم ہے۔



سپین کے تقریبا 97 فیصد شہری رومن کیتھولک عیسائی ہیں جو کہ 1978 تک سپین کا سرکاری مذہب تھا،1978 کے آئین میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ اس کے بعد سپین کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہوگا،2007 کے اندازے کے مطابق یہاں تقریبا دو لاکھ مسلمان بھی آباد ہیں،


معلوم تاریخ کے مطابق تقریبا 1000 قبل مسیح میں یہاں کیلٹک قبائل آباد ہوئے،اس کے بعد مختلف وقتوں میں فونیشیا،یونانی، ویندس، ویتھیگول حکمران رہے۔


سات سو گیارہ عیسوی کو مسلمان سپہ سالار طارق بن زیاد کے بادشاہ روڈرک کو شکست دے کر سپین پر اسلامی حکو مت کا جھنڈا گاڑا تھا، اس طارق بن زیاد نے جو خطاب اپنی فوج سے اپنی ساری کشتیاں جلا کیا تھا، یہ خطاب رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا، اس نے کہا تھا، ’’اے لوگو جائے فرار کہاں ہے؟ تمہارے پیچھے سمندر ہے اور سامنے دشمن، اور بخدا تمہارے لئے ثابت قدمی اور صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں’’۔



مسلمانوں کی اس فتح سے سپین کا وہ سات سو سالہ دور شروع ہوا جس سے یورپ کی تاریکی اور ظلمت دور ہوئی، سپین کی سرزمین اسلامی تاریخ میں بڑی زر خیز ثابت ہوئی اس کا مقام مردم خیز ی میں کسی طرح بغداد اور دمشق کی یونیورسٹیوں سے کم نہیں۔


معروف مستشرق منٹگمری واٹ اس بارے میں لکھتے ہیں۔’’جب مسلمانوں کی قسمت اپنے عروج پر تھی رو ان کی تعلیمات نے تمام مذاہب کے ماننے والے طلباء کو اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا، سپین کے یہودی بطور خاص عرب فکر سے متاثر ہوئے، ان میں سے بیشتر نے عربی بولنے والے اساتذہ سے زانوئے تلمذ طے کیا اور عربی زبان میں کتابیں لکھیں،’’۔



یہ تاریخ اسلام کا ایک المناک باب ہے کہ مسلمان آٹھ سو سال کی حکمرانی کے بعد سپین سے حرف غلط کی طرح مٹ گئے، اس کی وجہ مسلمانوں کی باہمی نا اتفاقیاں اور عرب و بربر کے اختلافات تھے، ریاستی خانہ جنگیوں نے مسلمانوں کو زوال کی راہ پر ڈال دیا، حتیٰ کہ 1236 عیسوی میں اندلس کا ہیرا شہر قرطبہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھن گیا، اور عیسائیوں نے مسجد قرطبہ کو گرجہ بنا لیا، سکوت قرطبہ اور اشبیلیہ کے بعد سپین میں مسلمانوں کی آخری ریاسے بھی بالآخر 1492 میں عیسائیوں کے قبضہ میں چلی گئی۔



سپین جو کہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا امین ہےمگر اسلامی سپین کی حکومت کے دردناک زوال کی بے شمار کہانیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، اب وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پروانوں  کے لیے اپنے تار تار دامن کو ایک بار پھر کشادہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے  جو یہاں زمین یا حکومت کو نہیں بلکہ دلوں کو جیتنے کے لیے آتے ہیں، وہ اپنی تاریخ دیکھے کے لیے آتے ہیں اور شاید ماضی سے کچھ سیکھنے بھی۔  



About the author

160