معاشرے کی تعمیر و ترقی میں خواتین کا کردار

Posted on at


 

 

 

 

 

 دیار مغرب کے کچھ عقلمند اور با شعور لوگوں نے  ایک انسان کی زندگی اور اس پیش آنے والے مسایہل کے بارے میں اپنا ٹھوس اور جامع نقطہ نظر پیش کیا۔اور اس کی حماہت میں ایسے ایسے بہترین اور ہر لحاظ سے مکمل دلایل دیے کہ ان کے نتیجے میں نیء نیء تحریکیں اور نےء انقلابات نے جنم لیا۔جس کے باعث ایس تبدیلیاں رونما ہوہیں جو دور رس ثابت ہوہیں۔ان تبدیلیوں نے دنیا کو تصادم اور کشمکش ،تباہی ،بربادی اور محرومی ومایوسی میں مبتلا کردیا۔

ان عقلمند لوگوں کے نظریات جن میں مذہب کی تحقیر نے انسان کی عزت کو اس قدر پامال کردیا کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔انسان حیوانیت کی ظرف مایل ہو چکا تھاکر دیااور یہ بات مغربی معاشرے کے لوگوں کو باور کرا دی گیء تھی کہ اگر وہ معاشرے کی تمام پراشانیوں، الجھنوں اور مسایل سے بچنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنی زندگیوں سے ہر قسم کی حد ختم کرنا ہوگی ۔ان تمام روایات کو وتڑنا ہوگا کہ جو انسان کی خواہشات کو پورا نہی ہونے دیتے۔ 

اسطرح اس جگہ ایک ایسی قوم تیار ہو گیءجو انکے نظرءے کے عین مطابق تھی کہ انسانی طبیعت سے متصادم اور معاشرے کی قید اور روایات کا کوی وجود نہی ہونا چاہیے،  انسان کی خوشی کے لیے لازم ہے کہ وہ تمام بندشوں سے رہا ہو جائے۔بالآخر یورپ اور امریکہ کی تمام اقوام میں معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا گیا اور نظام درہم برہم ہو گیا۔



 مزہب اسلام نے جو قیود اور بندشیں مقرر کی ہیں وہ تمام ایک بہترین معاشرے کے لیے لاذم و ملزوم کا درجہ رکتھی ہیں ۔اب اگر ہم تھو ڑا سا بھی  غور کریں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ آج کل  قو موں، ملکوں اور مزاہب  میں  جو کشمکش ،جاری ہے ،اس کا بعث وہ نظریات اور انقلابات ہیں جو مغرب کے لوگوں نے دنیا کو دیئے اور جس دلدل میں وہ خود جا گرےہیں

حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے کہ : تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور اس سے اسکی رعیت کے بارے میں ‌پوچھا جائے گا۔اس حدیث کے مطابق معاشرے کا ہر فرد چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اپنے اپنے دائرہ اختیار میں سب راعی (نگہبان) ہیں اور انکی ذمے داری ہے کہ بگاڑ کی تمام صورتوں پر نظر رکھیں اور ابتری و انتشار کے اس دور میں ہر جگہ مغربی تہزیب کی چالوں‌سے نہ صرف خود بلکہ معاشرے کو محفوظ کرنے کی تدابیر اختیار کی جایئں، مغرب کی تہذیبی یلغار سے بچنا اور باقی لوگوں کو بچانا اتنا آسان نہیں، لیکن حکم خداوندی ہے کہ “ اے ایمان والو، اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاو۔(القرآن)

صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اللہ سے روشناس کراوء اور انہیں آداب سکھاوء۔

تربیت کا جو نظام اسلام دیتا ہے انسانی طرز عمل پر اثر انداز ہونے والے بہترین عوامل میں سے ہے۔ہر انسان کا بچہ جب دنیا میں‌آتا ہے،والدین کے پاس امانت ہوتا ہے ،بچہ کا دل و دماغ سادہ ہوتا ہے، اس کے والدین یا معلم ، معاشرہ جس طرح چاہتے ہیں ،اسکے خیالات و افکار بناتے ہیں ، اگر خیر کی طرف راہنمائی کریں‌تو وہ اسکا عادی بنتا ہے اور اگر اسکو جانوروں کی طرح چھوڑ دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ خود تباہ ہوگا بلکہ اسکی تباہی کا وبال اسکے سر پرستوں پر بھی ہوگا۔تربیت کے اس مرحلے میں‌ماں اولاد کے قریب تریں ہوتی ہے،معاشرے کی تباہی ،بگاڑ اور تعمیر و ترقی میں وہ اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔دور حاضر کی مغربی طرز زندگی اور مصنوعی دمک نے ان ذمہ داریوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ ذہنوں کو بدلنے میں‌مصروف ہیں، پر باشعور مسلمان اس بات سے خوب واقف ہے۔ان ذرائع ابلاغ کے برے اثرات عیاں ہئں،جھوٹ اور مکروفریب کی اشاعت انکا کام ہے۔

آزادی کے مغربی تصور کے تحت ان ذرائع ابلاغ نے فسق و فجور کی خوب اشاعت سنبھالی ،پوری دنیا کے مسلمان ممالک کو اپنا ہدف بنا کر میڈیا کےاثرات کو گھر گھر پہنچا دیا۔

آج کی عورت کے لیے اپنی اولاد، خاندان، نظام، اصول و ضوابط سب کو ان اثرات سے بچانا اور متبادل خیر کا پیغام اپنی نسلوں کو دینا انتہائی ضروری ہے۔گھر اور بچے ہی معاشرے کی اکائی ہیں، اگر یہیں گرفت مضبوط ہو جا تو آگے معاشرہ بھی پابند ہوجاتا ہے اور اقدار کی حفاظت ہوسکتی ہے۔لہذا دینی اصولوں سے آگاہی اور مذہبی افکار کی روشنی میں بچوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے۔دشمنان اسلام اس فن سے بہ خوبی آشنا ہیں کہ آوارہ ذہن سیکولر اور مادہ پرستی کی خوراکیں کس طرح خوش رنگ بنا کر پیش کریں۔ماوں کی جانب سے بچوں کی تعلیم و تربیت انتہا ئی ضروری ہے۔ایک مشہور دانشور کا کہنا ہے:“یتیم وہ بچہ نہیں ہے جسے اسکے والدین دنیا میں‌تنہا چھوڑ گئے ہوں، اصل یتیم تو وہ ہیں جن کی ماوں کو تربیت اولاد سے دلچسپی نہیں ہے اور باپ کے پاس انکو دینے کے لیے وقت نہیں۔“

آج یہ بات کس قدر درست نظر آتی ہے۔بچوں کو برائیوں کے سیلاب سے بچانے کے لیے موجودہ دور کی عورت کو خصوصا“ اپنے اوقات کار،گھر کے نظام،بچوں کی دلچسپی اور اپنی لا پروائیوں پر توجہ دینی ہوگی اور اس ثقافتی یلغار کا مقابلہ اسلامی رنگ کو اپنا کر ہی کیا جا سکے گا۔رنگ اسی کپڑے پر اچھا چڑھتا ہے جس کا اپنا کوئی رنگ نا ہو،اپنی اولاد اور گھر کا افراد کا اور رنگوں سے نکال کر صبغت اللہ میں‌رنگنا ہی اس چیلنج کا مقابلہ کرنا کے لیے کافی ہوگا۔انشاءاللہ۔

واللہ اعلم۔ میں دیکھا جاتا ہے .

 



About the author

160