جب بھی میں اس بارے میں بولنے کی کوششیس کرتی ہوں یا پھر بولتی ہو تو مجھے ایک ہی چیز سننے کو ملتی ہے کے میں چپ کیوں نہیں کرتی اور جو ہو رہا ہے اسے اسی طرح کیوں نہیں چلنے دے رہی مے خود بھی مرو گی اور انہیں بھی مرواؤں گی یہ دنیا مردوں کی ہے ور ہمیں بولنے کا کوئی حق نہیں ہہے پر سوال یہ ہے کے ہم کب تک چپ یہ سب سہتے رہے گے کب تک ان نام نہاد رواجوں کی بھنت چڑتے رہے گے کیا ہم انسان نہیں یا ہمیں تکلیف نہیں ہوتی یا پھر ہماری آنکھیں خواب دیکھنے ک لئے نہیں ہے بلکے بس چپ چاپ ظلم دیکھنے کے لئے ہے
بہت سے تیسری دنیا کے ممالک کی ترا پاکستان میں بھی عورتوں کو بھڑ بکری کی سی عزت دی جاتی ہے ور اس سے اگے نہیں سمجا جاتا پاکستان میں آج بھی ایسے علاقے پاۓ جاتے ہے جہاں لڑکیوں کو گھر سے باہر نکلنے کی بی اجازت نہیں ہے تعلیم تو دور کی بات ہے خاص طور پی بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں میں. شرح خواندگی بڑھنے ک باوجود بھی آج بھی لڑکیوں کو خاندان کی عزت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے آج بی سندھ میں لڑکیوں کو خاندان کی لڑکوں کی غلطیوں کی وجہ سے جرگہ ونی کر دیتا ہے اعدادوشمار کے مطابق سندھ ور پنجاب کے دیہی علاقوں مے ٢٠١١ میں ہزار سے اوپر
لڑکیوں کو ونی کیا گیا کاروکاری کے اعداد اس سے بھی زیادہ ہے
پاکستان کی تاریخ میں ایسے کہی واقعات ہے جن کا سن کے روح کامپ جاتی ہے دو سال پھلے بلوچستان میں جرگے کی بات نہ ماننے بارہ لڑکیوں کو زندہ زمین میں گاڑنے کا واقعہ جس نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی تھی اسی سے پتا چلتا ہے کے عورت کی ہمارے ملک میں کیا اہمیت ہے
بہت سی نام نہاد تنظیمیں روز یہ دعوا کرتی ہے کے ان کی تنظیم نے پاکستان میں عورتوں کے حقوق کے لئے بہت سے کام کیے ہے اور آج کی عورت خود مختار ہے پر حقیقت اس سے بہت مختلف ہے یہ ہم سب جانتے ہے پر ہم کب تک یہ سب سہتے رہے گے کب تک ہم لوگ ان جھوٹی رسم و رواج اور مردوں کی گھٹیا سوچ کی وجہ سے قربان کیا جاتا رہے گا کب تک ہم سے یہ امید رکھی جائے گی کے ہم چپ چاپ اپنا سر جھکا کے ہر بات مان لے گے پر مجھے یہ ہی کہنا ہے کے خدا کے لئے ہمے بی جینے دو جس ترا سے آپ اپنے بیٹوں کو جینے دیتے ہو