بلا امتیاز حقوق کی فراہمی

Posted on at


تاریخ وہ حقیقت ہے جاے نہ جھٹلایا جا سکتا ہے اور نہ اسے اپنی مرضی ع منشا سے بدلا جا سکتا ہے۔ جو حقائق ایک مرتبہ تاریخ کے صفحات پر رقم ہو جائیں وہ زندہ حقیقت بن جاتے ہیں۔ اسی تاریخ سے ہم نے سیکھا ہے کہ حقوق کی عدم فراہمی نے بڑی بڑی بادشاہتوں اور سلطانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے۔ انہیں تقسیم کر دیا ہے۔ قابل رحم بن کے رہ جاتی ہیں وہ قومیں اور وہ ممالک جو تاریخ کے کے ان عبرتناک ایوب سے سبق نہیں سیکھتے اور ظلم و جبر کا لبادہ اوڑھ کر مطلق العنان حکمران بن کر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم سے بھی زیادہ طاقتوروں کو زمین کھا گئی۔

"ہوئے  نامور  بے  نشاں کیسے کیسے

زمیں  کھا گئی آسماں کیسے کیسے

آج بھی دنیا کے اکثر ممالک میں حقوق کے حصول کی جدو جہد کی جا رہی ہے جہاں سفاک حکمرانوں نے عوام کو غلام بنا رکھا ہے۔ انہی ممالک میں ایک نام مملکت پاکستان بھی ہے۔ جہاں کا وطیرہ یہی ہے کہ حقوق کے حصول کی جدوجہد کرنے والوں کا ہی دامن ہمیشہ خالی رہا ہے۔ فرائض کا پہاڑ سر پر رکھ کر حقوق کی چھاؤں چھین لی جائے تو نتیجہ 16 دسمبر1971 جیسا ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس سے بھی سبق نہ سیکھا۔وہ ایک حصۃ گنوا کر بھی زوالفقار علی بھٹو نے ایک لسانی بل ہیش کر کے کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے شہریوں پر ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے تو سندھ کی تقسیم کا عمل اسی وقت سے شروع ہو گیا تھا۔ انتظامیہ کی ناقص پالیسیوں نے ملک کو دو لخت کیا اور حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشیوں نے غیر منصفانہ نظام کو ملک میں نافز کر کے عوام میں بے چینی، بغاوت اور نفرت کو جنم دیا ہے اور ملک میں ایک عرصے سے بلدیاتی انتخابات نہ کروانے کا بھی ایک اہم سبب یہی ہے کہ اختیار سب صوبائی حکومت اپنے پاس ہی رکھنا چاہتی ہے۔

اسی زمرے میں جب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے 3 جنوری کے حیدرآباد کے جلسہ عام میں ایک اصولی مؤقف کی وضاحت کی تو گویا ایوانوں میں زلزلہ آ گیا اور ایک لا حاصل بحث کا آغاز ہو گیا۔ ہر کوئی اپنے آپکو سب سے زیادہ محب وطن ثابت کرنے میں لگ گیا اور حسب سابق 20 لاکھ جانوں کے نزراے ملک کی آزادی کے لیے پیش کرنے والوں کی اولادوں کو غداری کے طعنے دیے گئے۔ کیا غلط کہا الطاف حسین نے کہ غریب و مظلوم عوام کو ان کے حقوق دو۔ آبادی کے لحاظ سے حلقہ بندیاں کرو۔

آج شہروں میں جو ناقص انتظامی صورتحال ہے ، اس نے مسائل کے امبار کھڑے کر دیئے ہیں، لہٰزا آج وققت کی اہم ضرورت ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت خود ساختہ فیصلے لاگو کرنے کے بجائے سب جماعتوں سے باہمی مشاورت کرنے کے بعد مسائل کا حل نکالے۔ نہ کہ وہ حیلے بہانے کر کے بلدیاتی انتخاب کو التوا میں ڈال کر شہریوں کے لیے مزید مسائل پیدا کرے۔

   

 حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کروائے تاکہ نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم ممکن ہو سکے اور دنیا کے جدید ممالک کی طرح سندھ میں بھی خودمختار بلدیاتی نظام کا قیام عمل میں آ سکے تا کہ سندھ ترقی کرے اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب سندھ میں جدید بلدیاتی نظام کو نافز کیا جائے تاکہ ترقی کے لیے ایک نئے سفر کا آغاز ہو سکے اور سندھ اور پاکستان ترقی کر سکے۔



About the author

kanwalkhan

My name is Huma Khan. I am a student of B.S gender studies. I was in search of a platform for showing my abilities to the world by writing blogs. Now, i found filmannex for showing my passion about writing blogs. And i am very happy being a part of…

Subscribe 0
160