مسلمان قریش مکہ کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت کرنے کے بعد مدینہ منورہ میں امن کی زندگی گزارنے لگے تو کفار مکہ کو یہ بات پسند نہ آئی وہ مختلیف سازشوں سے مسلمانوں کو تنگ کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دے دی ۱۷ رمضان المبارک ۲ ہجری کو بدر کا معرکہ پیش آیا اس غزوہ کی کئی وجوہات تھیں جیسے قریش مکہ مسلمانوں کے اور اسلام کے سب سے بڑے دشمن تھے قریش مکہ کا کاروبار تجارت تھا وہ خوف زدہ ہو گئے کہ اگر مسلمان طاقت ور ہو گئے تو وہ ان کی تجارت کو نقصان پہنچائیں گے غزوہ بدر کی فوری وجہ ابو سفیان کا تجارتی قافلہ بنا جو شام کے ملک سے تجارت کے ساتھ واپس لوٹ رہا تھا۔
جب یہ مدینہ منورہ کے قریب پہنچا تو ابو سفیان کو خوف ہوا کہ کہیں مسلمان قافلے کو پیغام ملا تو ایک ہزار لشکر مدینہ منورہ کی طرف مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے چل پڑا۔حضرت محمدﷺ کو جب کفار مکہ کے لشکر کی آمد کی خبر ہوئی تو آپﷺ کے ساتھ صرف تین سو تیرہ مجاہدین تھے جن میں ۸۲ مہاجرین اور باقی انصار تھے اور ان کے پاس پورے ہتھیار بھی نہیں تھے۔
ان کے پاس کل چھ تلواریں تھیں ستر اونٹ اور سو گھوڑے (600) زر ہیں اور سینکڑوں اونٹ تھے لڑائی سے ایک دن پہلے اللہ تعالیٰ نے موسلا دھار بارش برسائی جس سے مجاہدین تازہ دم ہو گئے اسی رات رسول اکرمﷺ اللہ تعالیٰ سے کامیابی کی دعا کرتے رہے ۲ ہجری ۱۷ رمضان کو لڑائی کی ابتدا ہوئی کفار کی جانب سےعتبہ اس کا بھائی تنبیہ اور اس کا بیٹا ولید بن عتبہ مسلمانوں سے لڑنے کے لیے نکلے جبکہ مسلمانوں کی جانب سے حضرت علیؓ،حضرت حمزہؓ اور حضرت عبیدہ حارث مقابلے لے لیے آئے جلد ہی تینوں کافروں کو قتل کر دیا اس کے بعد جنگ عام شروع ہوئی اس لڑائی میں ۷۰ آدمی قید ہوئے اور ۱۴ مسلمان شہید ہوئے۔