خیر کی ترویج

Posted on at


 

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں امت محمدیہ ﷺکو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا( تم خیر امت ہو(یعنی وہ بہتر امت ہو) جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم (لوگوں کو) نیکی کا حکم دیتے ہو بدی سے روکتے ہو اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو) اور ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا ، اور چاہیئے کہ تم ایک میں یاک ایسی جماعت موجود رہے جو لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتی رہے اور اچھے کاموں کی تعلیم دیتی رہے اور بری باتوں سے روکتی رہے اور یہی وہ لوگ ہے جو فلاح پانے والے ہیں (آل عمران)

مولانا سلیمان ندوی ان دونوں آیات ربانی کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ تین فریضے یعنی ، دعوت الی الخیر ،امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہر زمانے میں امت محمدیہ پر ٖرض کفایہ ہے کہ اسکی ایک جماعت اس کام میں ضرور لگی رہے گی لیکن اگر اس سے مسلمانوں کی پوری جماعت نے پہلو تہی کی تو ساری امت گناہ گار ٹھہرے گی اگر کچھ جماعتوں نے بھی اس فرض کو انجام دیا تو یہ فرض پوری امت کی طرف ادا ہو جائے گا

قرآن مجید میں امور خیرکا زکر آیا ہے اور اللہ تعالی انسانوں کے جزبہ خیر کو معاشرے کی اصلاح و ترقی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے ( و افعلو الخیر ) کا یہ حکم ہر مسلمان کے لیے ہے یہ امور خیر کیا ہے ان کے بارے میں قرآن پاک ہماری رہنمائی کرتا ہے نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق مغرب (کو قبلہ سمجھ کر ان )کی طرف منہ کرلو ، بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر فرشتوں پر اور اللہ کی کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں اور مال دولت باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں ، یتیموں ، محتاجوں مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں کو چھڑنے کے لیے خرچ کریں اور نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں۔

نیکی اور خیر کے چھوٹے کاموں کو بھی معمولی نہیں سمجھنا چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ خیر و نیکی سے پیش آنا چاہیے۔  

  



About the author

sss-khan

my name is sss khan

Subscribe 0
160