ہمارا نظام تعلیم

Posted on at


 ہر قوم کی مخصوص تہذیبی روایات ہوتی ہیں۔ زندگی کا ہر شعبہ انہی روایات کی روشنی میں نشونما پاتا ہے۔ اسی طرح کسی قسم کا صحیح نظام تعلیم بھی وہی ہو سکتا ہے جو اس کی تہذیبی روایات اور معاشرتی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ اس قسم کا نظام تعلیم قوم کے اندر ایسا احساس، ایسا شعور، ایسا علم اور ایسا رویہ پیدا کرنے کا موجب ہو گا جو تہذیبی روایات اور معاشرتی اقدار کو زندہ و تابند رکھے۔


 


اگر کسی ملک میں ایسا نظام تعلیم رائج ہے جو وہاں بسنے والی قوم کے مذہب تہذیب و تمدن اور معاشرت کے برعکس ہے تو ایسی قوم دیر یا سویر اپنا تشخص کھو دے گی اور ترقی کی منزلیں طے کرنے کی بجائے پستیوں میں گرتی چلے جائے گی۔ کیونکہ تعلیم کا مقصد ایک خاص قسم کا کردار پیدا کرنا ہے اور اس خاص کردار کا تعین ہر ملک یا قوم کے اپنے اس نقطہ نگاہ سے ہوتا ہے جسے وہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ کھلی ہوئی اور افسوس ناک حقیقت ہے کہ اآج تک پاکستان کی کوئی حکومت بھی اپنے کسی ایسے نقطہ نظر کا با لوضاحت اعلان نہیں کر سکی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ہماری تعلیم کا بھی واضح مقصد نہیں ہے۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ہمارا تعلیمی خاکہ تیار کرتے ہیں اور خاکہ پاکستان کے واسطے تیار کرتے ہیں۔ اس تضاد کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم بے مقصد کا شکار ہے۔


 


اب ہمارے ہاں تعلیم کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ تعلیم کو ایک کاروباری چیز سمجھا جاتا ہے۔ چند فیصد افراد کو چھوڑ کر باقی تمام پاکستانی اس خیال میں غرق ہیں کہ تعلیم حاصل نہیں کی جاتی بلکہ خریدی جاتی ہے۔ یہاں طالب علم کو تحصیل علم کے دوران عموماً تمام اثاثہ صرف کرنا پڑتا ہے اس لیے ان کی کثیر تعداد فارغ التحصیل ہو کر اپنے مالی نقصان کی تلافی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی ایمانداری اور جذبہ خدمت ملک و قوم کا دامن داغدار ہونے سے بچا نہیں سکتی۔


 


ہمارے نظام تعلیم میں ابتدائی جماعتوں سے لے کر اعلیٰ درجوں تک کے نصاب کا ہماری عملی زندگی یعنی روز مرہ کی ضرورت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نصابی کتب میں بے سروپا باتوں کے انبار لیے ہوئے چند نا مکمل سے عملی اصول ملتے ہیں۔ جن کا ہماری معاشرتی اور عملی زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ پرائمری جماعتوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے مضامین کی تعداد بڑھا دینے سے ان کی توجہ بکھر کر رہ گئی ہے جس کا نفسیاتی نتیجہ ان کی پریشاں نظری اور علم سے فرار ہے۔ بچوں کے علاوہ اس مصیبت کا شکار ان کے والدین بھی ہیں۔ جن کا اقتصادی بوجھ بڑھ گیا ہے۔ جس کا منطقی نتیجہ ملک کی کمزوری اور پسماندگی ہو گا۔



 



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160