جس طرح خواتین بننے سنوارنے کو ضروری سمجھتی ہے اسی طرح ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کم عمر نظر آئیں اس بات کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں کہ جب کسی خاتون کی کم عمری کی بات نکلے تو خود کو کم عمر سمجھنے والی وہ خاتون نہایت خوش نظرآتی ہے پاکستان میں ہمارا معاشرہ جس طرح سے مغربی معاشرے کی نقل کر رہا ہے اسی طرح انکی زبان کے کافی الفاظ بھی ہماری اردو زبان میں ادھار لیے گئے ہے اور ان الفاظ کا استعمال بہت تیزی سے پھیلنے لگا ہے جیسے یہ ہماری زبان کے الفاظ ہوں
ایسی طرح ہمارے معاشرے میں ایک رشتے کا نام ( آنٹی) ہے جو کسی مغربی زبان کا لفظ ہے مگر ہمارے ہاں اکثر خواتین کو یہ لفظ بہت برا لگتا ہے اور اسکی یہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین کو اگر آنٹی کہہ کر مخاطب کیا جائے تو وہ غصے سے ٹوک دیتں ہیں کہ انہین دوبارہ آنٹی کہہ کر نہ پکارا جائے مگر بات تو یہ ہے کہ کس کس کو منع کیا جائے اگر بازار جائیں تو دوکانداروں نے آنٹی آنٹی کی رٹ لگائی ہوتی ہے ، بس میں سفر کریں تو کنڈیکٹر کہتا ہے کہ آنٹی کرایہ دیں اور کسی ٹھیلے والے کے پاس سے گزریں تو کہتے ہیں آنٹی گرماگرم پکوڑے لیں مطلب یہ کہ یہ لفظ خواتین کے لیے ہر کسی کے منہ میں رٹا ہواہے
اس لفظ کا استعمال اکثر خواتین بھی ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کے لیے کرتیں ہیں خود کو چھوٹا جتانے کے لیے تاکہ کسی پارٹی یا محفل میں سننے والے یہ سمجھے کہ جس کو مخاطب کیا ہے اس سے کم عمر نظرآئے محفل میں جس خاتون کو اس نام سے مخاطب کیا جائے تو محفل میں ہونے کی وجہ سے وہ دوسری خاتون کو کچھ کہہ تو نہیں سکتی مگر یہ اس کو سخت ناگوار گزرتا ہے
لفظ آنٹی کا استعمال اتنا عام ہو چکا ہے کہ اکثر اب چھوٹی بچیاں اپنے سے بڑی لڑکیوں کو آنٹی کہہ کر پکارتی ہیں خواتین اس لفظ سے بہت تنگ ہو چکیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ لفظ بہت بڑی عمر کی خاتون کے لیے ہے لیکن اب اس لفظ آنٹی کے بارے میں اپنی سخت گیری کم کرنا ہوگی کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز تبدیل ہوتی ہے یہاں تک کہ الفاظ کا استعمال اور معنی بھی بدلتے رہتے ہیں۔