آج کی تعلیم اور اس کے اثرات

Posted on at


میں اپنی بات کا آغاز حضرت محمدؐ کی حدیث پاک سے کروں گا۔


ایک حدیث کا مفہوم کہ


             ماں کی گود سے لے کر قبر تک علم حاصل کرو۔


 یعنی کہ علم کی اہمیت ہمیں ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے بخوبی اس کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ علم حاصل کرنے پر کتنا زور دیا گیا ہے۔ چاہے مرد ہو یا عورت علم ہر صورت میں فرض کر دیا گیا ہے تو میں کہنا یہ چاہتا ہوں آج سے ہزاروں سال پہلے جو بات ہمارے پیارے آقاؐ کہہ گئے تھے کیا ہم اس پر عمل کر رہے ہیں۔ ہاں علم یا تعلیم تو ضرور حاصل کررہے ہیں۔ اچھے سے اچھے ادارے سکول ، کالج اور یونیورسٹی سے لیکن کیا ہم اس پر عمل بھی کر رہے ہیں؟ کیا ہم وہی علم حاصل کر رہے ہیں؟ جس کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں۔ یہ چند سوال ہیں جن پر میں اپنی ناقص سوچ کے مطابق لکھنا چاہوں گا۔ ہاں ہم تعلیم تو حاصل کر رہے ہیں ۔ بالکل حاصل کر رہے ہیں لیکن میں یہ کہنے میں ذرا برابر بھی عار محسوس نہیں کروں گا۔ کہ آج کے تعلیم یافتہ انسان خواہ وہ میں بھی کیوں نہ ہوں ۔ اس سے بہت بہتر آج سے چند برس پہلے کا وہ جاہل انسان ہے۔ اس بات کہنے کہ بھی چند وجوہات ہیں۔


یہ کہ ایسی تعلیم کا کیا فائدہ جو انسان کو تہزیب نہ سکھائے۔ کیا فائدہ کہ انسان تعلیم حاصل کرنے کے بعد بڑوں کا ادب بھول جائے۔ ایک نوجوان سکول ، کالج ،یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ جو کہ تعلیم حاصل تو کر رہا ہے۔ بڑوں کی عزت کرو ۔ والدین کے ساتھ حسن و سلوک سے پیش آؤ۔ پڑوسیوں کے حقوق کا خاص خیال رکھو۔ والدین سے بدتمیزی، ہمسایوں کے ساتھ جھگڑا، بڑوں کی نافرمانی، عورتوں کی عزت پامال کرنا، تو کیا میں نے کچھ غلط کہا کہ ایسے تعلیم یافتہ یا ایسے علم کیا کرنا جو ہمیں نہ ہمیں تمیز ہی نہ سکھا پائے۔ تو بہتر ہوا نہ وہ جاہل انسان جس میں چھوٹے بڑے کی تمیز ہے۔ والدین کی عزت بھی کرتا ہے۔


آخر میں بس میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس علم میں اور آج سے برسوں پہلے والے علم میں بہت تضاد ہے۔ آج کا طالب علم لڑکیوں سے دوستی کو اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہے۔ سگریٹ پینا اپنا فیشن سمجھتا ہے۔کمزور پر اپنا ظلم کرکے اس میں اپنی بہادری سمجھتا ہے۔ اپنے بزرگوں کو پاگل اور بوجھ سمجھتا ہے لیکن اس میں سارا قصور صرف اس طالبعلم کا نہیں ہے۔ ہمیں ماحول ہی ایسا عیاشی کا دیا جاتا ہے۔ تعلیمی ادارے اب ایک بزنس میں بدل چکے ہیں۔ ہمیں ٹھیک اور صحیح علم دینے والے ہی چپ ہو کر رہ گئے ہیں۔ لیکن اگر کوئی قوم ایسا کرتی ہے تو پھر اسے برباد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس بربادی سے بچنے کے لئے ہمیں اپنے مقصد کو سوچنا چاہیے۔ کہ کیا جو علم ہم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ ہم کو کیا سکھا رہا ہے ہم اس کتنا مستفید ہو رہے ہیں۔



About the author

160