پاکستان کی شروع ہی سے یہ خوہش تھی کہ دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرے چونکہ پاکستان اقتصادی لحاظ سے کمزور تھا لہٰذا اس کی کوشش تھی کہ وسائل سے مالامال ممالک کے ساتھ قریبی دوستانہ تعقات قائم کرے ۔ انہی اصولوں کو سامنے رکھ کر پاکستان نے امریکہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا گر چہ شروع میں امریکہ نے ذیادہ گرم جوشی نہیں دکھائی تاہم 1949ء میں کمیونیسٹ انقلاب نے امریکہ کو پاکستان کی طرف بڑھنے پر مجبور کر دیا۔
1950 ء کی دہائی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس دہائی میں پاکستان امریکی بلاک میں شامل ہو گیا اور امریکہ کے زیر سایہ بننے والی سیٹو اور سینٹو کا رکن بھی بن گیا۔ ان معائدوں کی بدولت امریکہ نے خفیہ جاسوسوں کی پاکستان کی سرزمین پر تقرری کا حق حاصل کر لیا اور یوں پشاور کے نزدیک بڑھ بیر کے مقام پر ایک ہوائی چھاؤنی بھی بنا دی۔
بعد میں چند واقعات اور امریکہ سے وابستہ توقعات میں ناکامی نے صدر ایوب خان کو اپنی امریکہ سے متعلق خارجہ پولیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا۔ صدر ایوب خان نے امریکہ کو ناصرف اپنی چھاؤنیاں بند کرنے کا حکم دیا بلکہ دونوں عالمی طاقتوں یعنی امریکہ اور سوویت یونین سے برابری کی پالیسی بھی اپنالی۔
1965ء اور 1971ء کی جنگ میں امریکہ نے پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ پاکستان پر اسلحہ بھی بند کردیا چونکہ پاکستان کا زیادہ تر اسلحہ امریکہ سے خریدا گیا تھا لہٰذا امیریکی بندش نے پاکستان کو زیادہ نقصان پہنچایا۔
1979 ء میں اسلامی انقلاب ایران اور کمیونیسٹ فوجوں کی افغانستان میں مداخلت پاکستان کے لیے بھی خطرہ تھی۔ لہذٰا دونوں ممالک نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر سویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کے خلاف اتحاد کر لیا۔
اکیسویں صدی کے اس نئے دور میں امریکہ اور پاکستان ایک دفعہ پھر دوستی کی راہوں پر گامزن ہیں اگر چہ پاکستان کے بہت سارے تجزیہ نگار اب بھی تعلقات کو ایک عارضی دور سمجھتے ہیں لیکن امریکی حکومت کے عہدے داروں نے کئی بیانات دیے ہیں جن میں انھوں نے باربار کہا ہے کہ امریکہ اس بار مستقل بنیادوں پر تعلقات کو برقرار رکھے گا۔ مستقبل میں جو بھی ہوا ایک بات بڑی واضع ہے اور ہم سب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بین الاقوامی تعلقات میں کوئی بھی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا ۔ مستقل رہنے والی چیز صرف قومی مفادات ہے۔