احتساب

Posted on at


چاندی سے مہکتی اک حسین شب تھی۔اندھیری رات اپنی سیاہی کو چھپانے کیلے ستاروں کی طرہ سر پر سجاےٴ تھی۔


اور چاند اپنی چاندی کو یوں پھیلا رہا تھا،گویا اپنی حکومت کا واضح اعلان کردیا ہو،میں اسی منظر سے چھت


پر کھڑا لطف اندعز ہورہا تھا۔اور پاس ہی مسجد مین دین کی محفل جاری تھی۔


اور قاری صاحب موت کے بعد موت کے احتساب پر ایک طویل درس دے رہے تھے۔میں نے بھی اپنی چھت پر بیٹھے ہی ان کے درس میں شمولیت اختیار کرلی۔گھنٹہ دیڑھ کیسے گز گیا پتہ ہی نہ چلا۔اتنے میں واپڈا والوں کو گرمی سے دہکتی عوام پر ترس آگیا،اور انھوں نے بجلی لوٹا دی۔تو مجھے مجبورا نیچھے اترنا پڑا کیونکہ جھموتی ہواوں کے باوجود گرمی اپنے ہونے کا احساس دلانے سے نہ کتراتی تھی۔چناچہ چھت سے اترتے ہی بستر ماپ لیا اورخوابوں کی دنیا میں چلا گیا۔


دیھکتا ہوں کے سڑک پر کھڑا ہوں سیاہ رات ھے۔چاند،اپنی دھیمی روشنی کو اپنے اندر سمیٹے کہیں چھپا بیھٹا ھے۔شاہد بادلوں کی مہربانی سے ستاروں کا بھی دور دور تک کویٴ نشان تک نہیں۔اور سڑک کسی شمشان گھاٹ کا سا منظر پیش کرتی ھے۔اسی ویرانے میںﺍ ایک لمبا چوڑا بندہ ہاٹھ میں عصا لیے،میرے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا میں نے صاف انکار کردیا۔میرے انکار کے باوجود بڑی بے دردی سے مجھے گھسیٹے ہوےٴ مجھے  ساتھ لے جانے لگا۔یو لگتا تھا اسکی میرے ساتھ آگ پانی کی دشمنی ھے۔اسے دیگھ میں سمجھ گیا کے معاملہ کچھ اور ہی ھے اور اب میری اک بھی نا چلے گی۔تاھم میں اسکی ہاں میں ہاں میلاتا گیا۔


اور وہ مجھے ایسی جگہ لے گیا جہاں میرے جیسے اور بھی بہت سے لوگ تھے۔اور سب کا احتساب ہونے لگا۔ جس کا احتساب ہونا ہوتا تو اسکی جیب سے چند کاغزات  نکال کر محتسب کے ہاتھ میں دیا جاتا جس پر اس شخص کے اعمال ہوتے۔جسکی بنیاد پر محتسب اس بندے کو سبز یا سیاہ رنگ کا ایک ٹکڑا دیتا تھا۔جسکو سبز رنگ کا ٹکڑا دیا جاتا وہ خوشی سے جھوم اٹھتا تھا اور اسکو ایک خوبصورت محل میں داخل کیا جاتا تھا۔اور جسکو سیاہ رنگ کا ٹکڑا دیا جاتا گہرے کنسیں میں پھینک دیا جاتا۔جس سے اسکی ہڈیا بھی نا مالتی تھی


۔چناچہ میرا نمبر بھی جلدی آگیا میرے سامنے ہونے پر مسکرایا۔مگر پھر میرے کاغزات دیگھ کر غصے میں آگ بگولا ہوگیا۔اور مھجے سب سے گہرے کنویں میں پھینکنے کا کہ دیا۔میں لافی چینخنتا چلاتا رہا مگر اس نے میری اک نہ سنی اور مھجے کنویں میں پھنک دیا۔اس کے پھینکتے ھی میں پلنگ سے زمیں پر آگرا اور آنکھ کھل گی۔اور پاس والی مسجد میں آزان فجر کا وقت ہوا چاہتاتھا مین نے موقح غنیمت جانا۔وضو کیا اور مسجد کو چل دیا نماز کیلے۔



About the author

160