مخلوط تعلیم

Posted on at


پاکستان کی عوام کی طرف سے مسلسل مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ملک میں خواتین کی الگ یونیورسٹی قائم کی جائے یہ مطالبہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ مخلوط تعلیم مسلمان قوم کے مزاج اور اس کی تہذیبی روایات کے منافی ہے۔ یہ مطالبہ موجودہ مخلوط تعلیم کے نظام پر سخت تنقید ہے۔ اس وقت یونیورسٹیوں اور بعض کالجوں اور درس گاہوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی مشترکہ تعلیم کا نظام رائج ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کے حقوق و فرائض کے الگ الگ حدود مقرر کر دیئے ہیں۔ آپس میں یہ میل جول، ربط و ضبط، ارتباط و اختلاط اور آزادانہ خوش گپی یہ تو چھوڑیے اسلام تو غیر مرد کو غیر عورت کے سامنے کھلے انداز میں آنے کی اجازت نہیں دیتا۔


 


قرآن میں مردوں اور عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی کر کے چلیں تاکہ ایک دوسرے کو دیکھا نہ جا سکے۔ عورت کو یہ بھی حکم ہے کہ وہ اوڑھنی سے اپنے سینے اور چہرے کو چھپا کر رکھے۔ تنگ اور چست لباس نہ پہنے تاکہ جسم کا ابھار نمایاں نہ ہو۔ عورت کو مردوں کے سامنے بلند آواز کی اجازت بھی نہیں ہے بناؤ سنگھار تو دور کی بات ہے عورت کو کھلے بندوں مردوں کے سامنے آنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ اسلام دراصل یہ چاہتا ہے کہ عورت چراغ خانہ بنے، شمع انجمن نہ بنے۔ جس مذہب نے مرد اور عورت کا الگ الگ دائرہ مقرر کیا ہو۔ عورت پر پردے کی پابندی ہو اور مرد کو کسی عورت پر نگاہ ڈالنے کی اجازت بھی نہ ہو وہ بھلا مخلوط تعلیم کی اجازت کیسے دے گا۔


 


 جن یونیورسٹیوں اور کالجوں میں مخلوط تعلیم رائج ہے وہاں کا نظام کسی طرح بھی درست نہیں رہ سکتا۔ طرح طرح کی شکایتیں اور تکلیف دہ واقعات ان تعلیم گاہوں کی فضاؤں کو مکدر کر دیتے ہیں۔ مخلوط تعلیم سے اخلاقی، تہذیبی، معاشرتی اور سماجی اقدار بری طرح مجروح ہوتی ہیں۔ بے حیائی اور بے غیرتی کے مہلک جراثیم پھیلنے لگنے لگتے ہیں۔ اختلاط مرد و زن کا یہ سلسلہ پھر تعلیم گاہوں تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ مدرسوں سے نکل کر بازاروں اور چوراہوں میں بھی آ جاتا ہے اس طرح آہستہ آہستہ پوری قوم اپنی قدروں سے صرف نظر کرلیتی ہے۔




About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160