part 2)سید ضمیر جعفری کے زندگی کے حالات اور ان کی خدمات

Posted on at


ہمارے ملک میں سیاستدانوں کی شرانگیز پاں ڈھکی چھپی نہیں۔ اس وجہ سے یہاں پوری طرح سیاسی مزاج نہ پنپ سکا نہ ہماری عوام اور معاشرہ جمہوریت کے ثمر سے ضیض یاب ہوا۔ آئے دن اسمبلیوں کا ٹوٹنا ، مارشل لاء لگنا ، ممبروں کا گھوڑے کی طرح بکنا  اور اسمبلیوں میں ہاتھا پائی وغیرہ ہماری ملکی سیاست کے اہم نکات ہیں۔ ضمیر اپنے قطعہ "سیاست کا رخ" میں سیاست کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار یوں کیا ہے:

قبول  نہ  تھی    بے    اصولی    سیاست

جو  ہارے   الیکشن  تو  بھولی  سیاست

یہی  دوڑ   اگر   ہے    ہا   و   ہوس  کی

چلے  گی  نہ  یہ  سانس  پھولی  سیاست

امریکہ کے ہاتھوں دنیا کا جو حشر ہوا اور ہمارے ملک  کو امریکی دوستی سے جتنا نقصان اٹھانا پڑا وہ ناقابل بیان ہے۔ لیکن ہمارے حکمران پھر بھی ان کی باتوں میں آکر ہماری آزادی ڈالروں کے عوض گروی رکھ دیتے ہیں۔ جعفری نے ایک قطعہ " امریکہ کی حکمت عملی" کے بارے میں ایک زبردست حقیقت آشکارا کی ہے۔

امریکہ اپنے مطلب کا یار ہے۔ مطلب نکلنے کے بعد وہ کسی کو منہ نہیں لگاتا ۔ ہمارے حکمران ہر روز امریکہ کی دوستی کے بارے میں بیان دیتے ہیں اور پھولے نہیں سماتے کہ وقت آنے پر امریکہ ہماری مدد کو آئے گا۔ لیکن ہر دفعہ مصیبت کے وقت اس نے آنکھیں پھیر لیں۔ ہماری یک طرفہ دوستی کے بارے میں ضمیر اس طرح فرماتے ہیں:

اس  گلی  میں  کیا  ستارے   تھے  جو دفنائے  گئے

ہم  جہاں  کھوئے  گئے  اب  تک  وہیں  پائے  گئے

دوستی  کے پل  کے یک  طرفہ  حفاظت  کے لیے

 بار ہا  کھائے ہوئے دھوکے بھی  ہم  کھائے گئے

ایک اور جگہ بتاتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی علاقہ امریکی دستبرد سے محفوظ نہیں ہے۔ یہاں تک کے قبر کے اندر بھی منکر نکیر تب تک نہیں آتے جب تک ان کو امریکہ کے صدر اجازت نہ دیں۔

سید ضمیر جعفری نے مولانا الطاف حسین حالی کی مشہور نظم " مسدس حالی" میں صرف ایک لفظ کا اضافہ کر کے پاکستان کی بدحالی کے حوالے سے اپنی نظم کا نام "مسدس بدحالی" رکھا ہے۔ اس نظم کا ایک ایک بند اور ایک ایک شعر اپنے وطن کی بدحالی ، سیاستدانوں اور حکمرانوں کے جھگڑوں  اور لوٹ مار کے نوحوں سے بھرا ہوا ہے۔

ضمیر کی شاعری میں طنز کے مقابلے میں مزاح کا عنصر زیادہ ہے۔ اس طرح کی خوبصورت شاعری سے نہ کسی کے ماتھے پر شکن آتے ہیں  اور نہ کسی کی دل آزاری ہوتی ہے۔ بلکہ باتوں باتوں میں مطلب پورا ہوجاتا ہے اور سب کے ہونٹوں پر بشاشت پھیل جاتی ہے۔ انہوں نے فلسفہ و فکر کی گھتیاں نہیں سلجھائیں نہ ہی کسی دبستان فکر سے وابستہ ہو کر اپنے لیے کوئی خاص راستہ پسند کیا۔ انہوں نے ادب کے جمالیاتی انداز فکر کو برتا ہے۔ جدید مزاحیہ شاعری میں جعفری کو پیر و مرشد کا درجہ حاصل ہے۔

مزاح کی تخلیق میں جس فنکاری اور پرکاری سے سید ضمیر جعفری نے زندگی کے چہرے سے نقاب سرکایا ہے۔ اس کے اظہار میں جس شائستگی اور تہذیب فن کا ثبوت دیا ہے اس جادو سے شعر و ادب کی تاریخ پہلے آشنا نہ تھی۔



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160