ذات کا احاطہ

Posted on at


ذات کا احاطہ



دنیا کے کسی کونے میں جائے یا کسی بھی قومیت سے تعلق رکھنے والے شہری سے اپنی معاشرے اور حکومتی کارکردگی کا پوچھے وہ یقیناً نسبتاً وہ اپنی حکومتی کارکردگی پر بے اطمینانی کا برملا اظہار کریں گا اور معاشرتی ناانصافیوں کی ایک لمبی تفصیل بتائے گا۔ گویا دنیا میں تقریباً ہر طرف معاشرتی اونچ نیچ پائی جاتی ہے۔ کوئی معاشرہ مسائل سے مبرا نہیں۔  حکومت انتظامی غفلتوں اور خامیوں سے خالی نہیں کہیں کم اور کہیں زیادہ۔  یہ چیزیں اپنی جگہ ہم لوگوں نے کبھی اپنی ذات کا احاطہ کیا ہے کہ ہم لوگ اندر سے کتنے پاکیزہ ہیں اور ہماری ایمانی روح کتنی صحت مند ہے۔  معاشرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی جائے جس شخص کو بدعنوایت کا موقع ملے اسے کم ہی گمواتا ہے ۔ اور اسی طرح جب اختیار آہ جائے تو مکمل ہی بااخیتار بن جاتا ہے اور قانون کی کتاب میں درج لاگو قوانین اس کی ذات پر یکسر لاگو نہیں ہوتے۔ قانون کو ہاتھ میں لینے کی عادت اب تو عام ہو چکی ہے جو انتظامی اور پولیس اہلکاروں کی غفلت سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال ہمارے معاشرے کی مساجد و منابر کا استعمال کرنے کا انداز بھی ہے۔ آج تک ہمارا قومی سطح پر کوئی ٹھوس فکری نظریہ نہیں بن سکا، علماء کے نزدیک دینی ہونا چاہیئے اور حکومت کی نظر میں جمہوری ہونا چاہیئے۔  ایک طرف عام شخص کی قانون سے غفلت اور لاپروائی دوسری طرف حکومتی انتظامیہ کی طرف سے چشم پوشی۔



بچے کو سکول میں داخلے سے لیکر کر اسے نوکری دلانے تک ہم ہر جگہ قانوں کو پامال کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، سکول ، کالج ، ہسپتال ، تھانہ کچہری ہر جگہ قومی وقار مسمار کیا جارہا ہے اور حقوق پامالی کے لئے رشوت کا بازار گرم ہے۔  قابلیت سے زیادہ پیسہ مقدم ہے۔  ایک اور مثال ہے ہم لوگ اکثر لوڈ شیڈنگ کا رونا روتے ہیں لیکن کبھی بھی اس کے بحران کے اسباب کا نہیں سوچا۔ ایک سبب بجلی چوری اور اس کا بے وجہ خرچ ہے۔  ایک طرف بڑی بڑی عمارتوں میں اے سی چل رہے ہوتے ہیں دوسری طرف دستی پنکھا چل رہا ہوتا ہے۔  اور اے سی کا استعمال نہ کیا جائے تو یقینی طور پر ہر کوئی کم از کم الیکڑک پنکھے کی سہولت لے سکتا ہے۔



اگر معاشرے میں ہر کوئی فرد اپنا اپنا کردار ایمان داری اور محب وطن ہو کر کرئے اور اپنی صلاحیتوں کو معاشرے کو بہتر بنانے کے لئے استعمال کرے اور اپنی ذات کا احاطہ کر کے  ذمہ داریوں کا احساس کرے تو بیشر معاشرتی مسائل حل ہو خود ہی حل ہو  سکتے ہیں۔    



ہم سب اجتمائی سوچ رکھ کر اپنی زندگیوں کے اچھے یا برے کا احاطہ   کرنا ہوگا اور کیونکہ قربانیوں کی بدولت ہی خوبیاں اجاگر ہوتی ہیں۔ اپنی ذاتوں کو دوسرے کے استحصال ، کرپشن ، لوٹ مار ، چور بازاری ، اقرباپروری، عدم برداشت اور عدم رواداری سے پاک کرنا ہوگا۔  یہ کام آج ہی سے مضبوط ارادے اور یقین و استقامت سے  شروع کرنا ہوگا اسی کی بدولت ہم ایک خوشحال پاکستانی معاشرہ بنا سکتے ہیں۔


فرد قائم ربط ملت سے تنہا کچھ نہیں


موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں


 


 



160