بیوٹی پالرز یا جرائم کے اڈے،،،؟انتظامیہ کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے

Posted on at



بیوٹی پالرز یا جرائم کے اڈے،،،؟انتظامیہ کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے
ہزارہ ڈویژن کے گلی محلوں میں قائم غیر قانونی بیوٹی پالرز نے جرائم کی شرح میں ناقابل یقین حد تک اضافہ کر دیا ہے،بظاہر بیوٹی پالرز کے اندر چھپی فراڈن اور نوسرباز خواتین سادہ لوح آنے والی بچیوں اور خواتین کو اس طرح ورغلاء کر انہیں نہ صرف قیمتی اشیاء نقدی اور مال و زر سے محروم کرنے لگی ہیں بلکہ انہیں مختلف حیلوں کیساتھ خاندانی اور معاشرتی مسائل میں بھی الجھا رہی ہیں،ہزارہ ڈویژن سے ہمارے نمائندوں کے مطابق اسکن ڈیزیز کے نام پر قائم ان ہی مذکورہ بالا اڈوں میں فحاشی کی ترغیب کیساتھ سادہ لوح بے بس نوجوان دوشیزاؤں کو ورغلاء کر انہیں بلیک میل اور بعد ازاں انہیں ایسے ہی دہندوں پر مجبور کر دیا جاتا ہے



،ایبٹ آباد سے ملنے والی رپورٹس کے مطابق گلی محلوں اور مختلف بازاروں اور بعض آبادی سے دور ویرانے میں قائم کیے گئے ایسے کئی بیوٹی پالرز ہیں جن کا ضلعی یا مقامی انتظامیہ کے پاس بھی کوئی ریکارڈ نہیں،سنٹرز کے باہر بورڈ آویزاں کر کے یہ تااثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مذکورہ مقام صرف خواتین کے بناؤ سنگھار کیلئے مخصوص ہیں مگر بیشتر ایسے سنٹرز کی حقیقت اس سے مختلف ہوتی ہے،جرائم کی بنیادی وجہ بننے والے انہی بیوٹی پالرز کے حوالے سے اسکن ڈیزیز اسپتال نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران بیوٹی پالرز سنٹرز سے کئی کیسز سامنے آئے ہیں 2004سے جاری کردہ اپنی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت جرائم کیسز جو سامنے آئے تھے ان کی تعداد 2030اس سے اگلے سال یعنی 2005میں یہ تعداد بڑھ کر 2880اور اب 2014جبکہ ابھی یہ سال اختتام تک بھی نہیں پہنچا انہی اڈوں پر پنپنے اور پیش آنے والے جرائم کی شرح 5000سے تجاوز کر گئی ہے گو کہ انتظامی غفلت اور کھلے عام بغیر اجازت کے ایسے ہی بے حیائی کے کھولے جانے والے اڈوں کی بھرمار سے اب تک 14ہزار کے لگ بھگ خاندان تباہ ہو چکے ہیں،رپورٹ کیمطابق سامنے آنے والے زیادہ تر کیسز میں چہرے پر بال آنے،سر کے بال غائب ہو جانے،اور چہرہ جھلس جانے کے ہیں ،جبکہ جنتر منتر کی ترغیب دے کر باتوں باتوں میں سادہ لوح خواتین کو اپنے خاوند،نند،ساس اور سسر کو زیر کرنے کیلئے گنڈا تعویذات کروانے پر قائل کیا جاتا ہے اور وہی خواتین جو بناؤ سنگھار کیلئے ایسے سنٹرز کا رُخ کرتی ہیں اپنا گھر بار اور روپیہ پیسہ تک برباد کر دیتی ہیں،ایبٹ آباد سے ملنے والی کچھ اطلاعات بھی ایسی ہی ہیں کہ خواتین کے ذریعے بیوٹی پالرز چلانے والی عورتیں ان کے گھر اور ان کی آمدن سے متعلق اور گھر میں رہائش پذیر افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرتی ہیں اور بعد ازاں اپنے ساتھ جُڑے چوروں اور ڈکیتوں کے گروہ کو تمام تر معلومات فراہم کر کے وارداتوں کے ارتکاب میں باقاعدہ مدد فراہم کرتی ہیں اور بعدازاں جب واردات کامیاب ہو کر ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہو جائیں تو مال مسروقہ میں سے برابری کی سطح پر حصہ داری وصول کی جاتی ہے، حکومتی یا مقامی سطح پر دیکھا جائے تو اس شعبہ کیلئے نہ تو کسی تربیت کو ضروری قرار دیا جاتا ہے اور نہ ہی ایسے سنٹرز چلانے یا قائم کرنے کیلئے کوئی طریقہ کار وضع کیا گیا ہے،اس سلسلے میں مذکورہ بیوٹی پالرز سنٹرز چلانے والوں کو نہ تو حکومت سے کسی قسم کی اجازت لینے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ ہیکسی لائسنس کی انہیں ضرورت پیش آتی ہے ،ایک اندازے کے مطابق ہزارہ ڈویژن میں قائم بیوٹی پالرز کی تعداد ہزاروں میں جبکہ ان میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد ان سے بھی کئی گنا بڑھ کر ہے،حیران کن امر یہ ہے کہ ہزارہ میں جو چند ایک بیوٹی پالرز رجسٹرڈ ہیں ان سے مقامی سطح پر تو ٹیکس وصول کیا جاتا ہے مگر ان سنٹرز میں پنپنے والی برائیوں،بیماریوں اور قباحتوں کو محسوس یا کاروائی کرنے کی کسی کو بھی ضرورت پیش نہیں آتی اور ان ہی سنٹرز میں انسانی جلد پر تجربات کر کے انہیں مختلف قسم کے جلدی امراض میں مبتلا کر دیا جاتا ہے،طبی ماہرین کے مطابق ان بیوٹیشن ورکرز کو صرف بالوں اور چہرے کو ہی سنوارنے تک محدود رہنا چاہیے مگر یہ ورکرز خواتین کی جلد سے کھیلنا اور اپنے ہی یجربات کرنا شروع کر دیتی ہیں،اب تو بعض بیوٹی پالرز میں لیزر کا استعمال بھی شروع کر دیا گیا ہے جو کہ ایک ماہر امراض جلد کے علاوہ کسی کو رکھنے اور استعمال کرنے ہی کی اجازت ہوتی ہے مگر ان تمام باتوں سے قطع نظر بیوٹی پالرز بیماریوں سے زیادہ جرائم کے منظم اڈے ہیں جن کیخلاف کاروائی کرنا اور جرائم کی شرح کو کم کرنے کیلئے مقامی انتظامیہ اور حکومتی حلقوں ہی کی ذمہ داری ہے،غیرقانونی اور انسانی جانوں سے کھیلنے اور ایسے تمام سنٹرز جو کہ جرائم کی آمجگاہ میں تبدیل ہو چکے ہیں انہیں نہ صرف سیل کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ان میں موجود فراڈن اور نوسرباز خواتین کو گرفتار کر کے جرائم پیشہ افراد کو نکیل ڈالنے کی بھی ضرورت ہیں جنہیں وہ معلومات فراہم کر کے ان کی وارداتوں میں برابر کی حصہ دار ہیں۔




About the author

SalmaAnnex

Haripur, Pakistan

Subscribe 0
160