ایٹم بم (١

Posted on at


ایٹم بم جو کہ ایک توپ کے مہ سے نکل کر گڑھا پیدا کر دے ،اس میں سے ٹکڑے نکل کر جن آدمییوں کو لگیں ان کو زخمی کر دیں ،تھوڑی دیر تک گرد غبار اٹھے اور چند انسانی زندگیوں کو تلف کر دے اور بس .آج کا ایٹم بم  وہ نہیں جسے امریکا نے جنگ عظیم دوم کے آخر میں جاپان کے شہر ہیروشیما میں پھینک کر ہزاروں انسانوں کو موت کے گھات اتار دیا تھا .بلکہ ایٹم بم سے مراد آج کے ایٹم بم سے ہے یا مستقبل میں تیار ہونے والے اس ایٹم بم سے ہے جو ساری دنیا کو پلک جھپکنے میں تباہ برباد کر دے گا نا کہیں زندگی کا نام و نشان رہے گا نہ کہیں نباتات ہوں گی .پھر روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے اور سمندر کا پانی بھاپ بن کر اڑے گا اس سے ہونی والی  تباہی کا تصور ہی دل کو ہلا کر رکھ دیتا ہے .

انسان کو الله نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اسے کائنات کی ہر چیز کو تسخیر کرنے کی طاقت سے نوازا ،اسے عقل دی کے خیر و شر میں تیز کر سکے اور صلاحیت تحقیق و تجسس بکشی کے اپنے اور اپنے وطنوں یا دیگر انسانیت کے لئے آرام و آرائش کا سامان مہیا کرے اور جذبہ ہمدردی سے ان دنیا کو جنّت کا نمونہ بنا کر دکھاۓ .

اس لئے انسان اپنے علم کے زور سے قدرتی عناصر کو زیر کرتا رہتا ہے اور طاقت اور قوت کے بہت سے سرچسموں کا کھوج لگاتا رہتا ہے .اس کے جذبہ تحقیق و تجسس نے ایسی ایسی چیزیں بھی دریافت کی جنہوں نے دکھی انسانیت کے زخم پر مرہم کا کام کیا .زندگی آسان کر دی .ملکوں کے فاصلے دور کر دے .زرائے آمد و رفت میں سہولتیں پیدا کی .نظام مواصلات اس قدر ترکی دی کے دنیا کی ہر چیز اسی وقت یہاں سنی جا سکتی ہو .دنیا کے واقعات یہیں بیٹھے ہمارے سامنے ا جاتے ہیں .ہوا کے دوش پر پرواز کے گھنٹوں میں آدمی دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ جاتا ہے .انسان نے کہاں تک رسائی کر لی ہے .یہ سب چیزیں انسان کر سکھ اور آرام کر لئے پیدا کی گیں .لکن اس کے ساتھ ساتھ انسان کی خود غرضی بھی اس حد تک بی لگام ہو گئی کے وہ حقوق البعاد کی سہادیں پار کر کے تباہی کے کنارے تک پہنچ گیا .



About the author

160